انتہائی باریک اشیا کی تیاری ایک مشکل عمل ہے لیکن بڑی اشیا بنانے کے بعد انہیں سکیڑ کر چھوٹا کرنا قدرے آسان ہوجاتا ہے اور یہ کام تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے ایک نئی تکنیک کی بدولت ممکن ہے جسے ’امپلوژن فیبریکیشن‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس تدبیر سے باریک کھوکھلے موتیوں سے لے کر خردبینی زنجیریں تیار کی جاسکتی ہیں خواہ وہ پلاسٹک سے بنی ہوں یا دھاتوں سے بلکہ دیگر اسمارٹ مٹیریل سے بھی ان کی تیاری ممکن ہے۔ نت نئی ٹیکنالوجی کے لیے مشہور امریکی ادارے میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ایڈ بوئڈن اور ان کے ساتھیوں نے دریافت کیا کہ تھری ڈی پرنٹنگ کے مروجہ اصولوں کو الٹا کرکے بڑی اشیا کو باریک اور چھوٹا بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے ایک درجہ بدرجہ پیچیدہ طریقہ اختیار کیا۔ اس آئیڈیا کو جانچنے کے لیے ماہرین نے پیمپر میں مائع جذب کرنے والے ایک مادے ’پولی کرائیلیٹ‘ کے تانے بانے سے ایک مچان (اسکیلفلڈ) تیار کیا۔ اس کے اندر لیزر کے ذریعے سینٹی میٹر جسامت کی ساختیں کاڑھیں۔ اس کے بعد ان پر جب ایک قسم کا تیزاب ڈالا گیا تواصل سے ہزارویں حصے تک سکڑ گئیں۔ اس تکنیک سے ماہرین نے کھوکھلی مکعب (کیوب) نما ساختیں بنائیں اور ’ایلس ان ونڈر لینڈ ‘ کہانی کی مرکزی کردار لڑکی تیار کی۔ ان دونوں کی جسامت ایک مکعب ملی میٹر ہے اور اس کے اندر 50 نینومیٹر تک کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔ بوئڈن کے مطابق اس طرح ایک بڑی شے کو سکیڑ کر چھوٹا بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح اشیا 8 ہزار گنا سمٹ اور پھیل سکتی ہیں اور یہ سب کام تھری ڈی پرنٹر سے ممکن ہے۔ امپلیوژن طریقے سے بصری عدسے (لینس) اور دیگر کئی اشیا بنائی جاسکتی ہیں یہاں تک کہ برقی آلات بھی تیار کیے جاسکتے ہیں جس سے مائیکرو فیبریکیشن میں ایک انقلاب آسکتا ہے۔