ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) غلافِ کعبہ پر سونے کی کڑھائی سے تیار کردہ پانچ قندیلوں کا اضافہ کردیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک پر ’’اللہ اکبر‘‘ تحریر ہے اور ان کا مقصد بیت اللہ کے اُس کونے کی نشاندہی کرنا ہے جہاں حجرِ اسود نصب ہے۔
اس بات کا باقاعدہ اعلان امورِ حرمین شریفین کے عمومی نگراں ادارے (جنرل پریذیڈنسی) نے گزشتہ روز اپنے سرکاری ٹویٹ میں کیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ قندیلوں کا مقصد طواف کی ابتداء اور اختتام کی جگہ کو واضح کرنا ہے۔
واضح رہے کہ حج و عمرہ کے دوران طوافِ کعبہ کا آغاز حجرِ اسود کے عین سامنے سے کرنا واجب ہے۔ یعنی اگر کسی اور مقام سے طوافِ کعبہ شروع کیا جائے تو وہ منسوخ تصور کیا جائے گا اور دوبارہ سے کرنا پڑے گا۔ البتہ ہجوم کے باعث لوگوں کو بیت اللہ کے اُس کونے کی شناخت میں دشواری یا غلط فہمی ہوتی ہے جہاں حجرِ اسود نصب ہے۔ یہ اقدام زائرین کی ان ہی مشکلات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
یہ سنہری قندیلیں بیت اللہ کے غلاف ’’کسوہ‘‘ پر رکنِ یمانی کے عین اوپر سونے سے کڑھا ہوا مستطیل لگانے کے ایک ماہ بعد منظرِ عام پر آئی ہیں۔ علاوہ ازیں رکنِ یمانی کے گرد دائرے کی شکل میں ایک اور سنہری آرائش اور میزابِ رحمت کے گرد ایک اور آرائش لگائی گئی تھی۔
مذکورہ پانچ سنہری قندیلیں جو عمودی شکل میں ہیں، بیت اللہ کی حالیہ تاریخ میں وہ چوتھی نشانی ہے جسے زائرین کی رہنمائی کےلئے حجرِ اسود کے عین اوپر غلافِ کعبہ میں لگایا گیا ہے۔ اگرچہ طواف کی ابتدا اور اختتام حجر اسود سے ہوتا ہے تاہم اکثر مرتبہ طواف کرنے والوں کے اختلاط اور بے پناہ رش کے سبب غلط فہمی ہوجاتی ہے۔
اس سے پہلے سعودی مملکت کے عہد میں مقامِ آغازِ طواف کی نشاندہی کےلئے تین نشانیاں لگائی گئیں۔ ان میں پہلی نشانی مطاف کے صحن کے اندر سیاہ دائرے کی شکل میں تھی۔ تاہم شاہ فہد کے دور کی توسیع میں اسے ختم کر دیا گیا۔
بعد ازاں دوسری نشانی کے طور پر زمین پر نمایاں رنگ سے ایک لکیر بنادی گئی جو حجر اسود کے مقابل باب صفا کی جانب پھیلی ہوئی تھی۔ یہ لکیر کئی سال تک ابتدائے طواف کا مقام جاننے میں نمایاں ترین ذریعہ بنی رہی۔
اس کے بعد زائرین کا ہجوم مسلسل بڑھنے کے نتیجے میں اس نشانی کی افادیت کم ہوگئی اور اسے بھی ختم کردیا گیا؛ جس کے بعد حجرِ اسود کے عین سامنے کی دیوار پر سبز قمقمے نصب کردیئے گئے تاکہ ان سے طواف کے آغاز و اختتام کے مقام کی نشاندہی میں رہنمائی لی جاسکے۔