ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ بہت ہی جلد نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھیانک حقیقت کا سامنا کرنے والے ہیں، ٹرمپ کے ان تمام وعدوں کو حقیقت میں بدلنے کا وقت آگیا ہے جو انہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران امریکی عوام سے کیے تھے۔
صدر براک اوباما ان دنوں اپنے الوداعی یورپی دورے پر ہیں، جہاں وہ امریکی اتحادیوں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ایشیا پیسفک کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اوباما کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے وعدوں کو حقیقت میں بدلنا آسان نہیں ہے۔ براک اوباما کا کہنا تھا کہ ہزاروں تارکین وطن کو بے دخل کرنا، جاپان اور نیٹو جیسے اتحادیوں کے ساتھ دفاعی معاہدات کو نظر انداز کرنا، ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے اور عالمی ماحولیاتی تبدیلی جیسے عالمی معاملات پر بیان بازی کرنا اور ان سے دستبردار ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کو مفروضوں کے بجائے حقیقت پسندی اور تجربات سے کام کرنا پڑے گا، امریکی صدارتی ذمہ داریوں کا دفتر ٹرمپ کے دیگر دفاتر جیسا نہیں ہے۔ براک اوباما کا مزید کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو خواتین، اقلیتوں اور دیگر معاملات میں زیادہ توجہ سے کام کرنے کی ضرورت ہے، ٹرمپ کو خصوصی توجہ سے یکہجتی اور اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں براک اوباما کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق دیگر لوگوں کی طرح ان کو بھی خدشات ہیں، مگر اب ٹرمپ کو مہم کے دوران کیے گئے وعدوں سے متعلق حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ امریکی صدر براک اوباما نے انتخابات میں کامیابی کے بعد نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے گزشتہ ہفتے وائٹ ہائوس میں ملاقات بھی کی تھی، ملاقات کے دوران براک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکا میں مارکیٹوں کی واپسی اور دیگر عوامی جذبات کی وجہ سے منتخب کیا ہے۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ہی صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے، مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے خلاف امریکا بھر میں شدید مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ارب پتی 70 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ 9 ہفتوں کے اندر اندر وائٹ ہائوس کے انتظامات سنبھالیں گے، دوسری جانب انہوں نے اپنی ٹیم بنانے کا بھی آغاز کردیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرنے والےارب پتی اور ٹی وی اسٹار ہیں، ٹرمپ کو سیاست کا کوئی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکا کو سب سے زیادہ خطرہ عالمی تعلقات کے حوالے سے ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے اس جانب بھی توجہ دلوائی کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا سیاست میں تجربہ نہ ہونا اور ان کی جانب سے ٹیم میں ماہر لوگوں کی عدم شمولیت عالمی سطح پر امریکا کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگی۔ براک اوباما کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ نظریاتی پالیسیوں کے بجائے حقیقت پر مبنی حکمت عملی اپنائیں گے۔ اوباما کا کہنا تھا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں اچھے لوگ اور ماہرین شامل ہوگئےتو ٹرمپ اچھا اور بہتر وقت گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جیت کے بعد گزشتہ ہفتے ہی اپنی ٹیم بنانا شروع کی تھی، ٹرمپ اپنی ٹیم کے دو اہم ترین لوگوں کو منتخب کر چکے ہیں، ٹرمپ نے ریپلکن نیشنل کمیٹی کے سربراہ رنیسی بریبس (Reince Priebus) کو وائٹ ہائوس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا ہے، جب کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا فائربرانڈ کے اسٹیو بینن (Steve Bannon) چیف آف اسٹریٹجی مقرر کیا ہے۔
چیف آف اسٹریٹجی اسٹیو بینن کت تقرر پر ڈونلڈ ٹرمپ کو پہلے ہی ہفتے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسٹیو بینن کے تقرر پر مسلمان اور یہودی شہریوں نے خدشات کا اظہار کیا۔ اوباما نے اسٹیو بینن پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ ایک صدر کے لیے اچھا نہیں ہوگا کہ وہ تقرریوں پر تبصرہ کرے، ہمیں ایسی تقرریاں کرنی چاہئیے جو عام عوام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم مینیجر کیلینی کانوے کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ کی تقرریاں رواں ہفتے تک کام مکمل کرلی جائیں گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ کے لیے سب سے اہم چار نکاتی ایجنڈہ ہے، جس میں سب سے اہم خارجہ پالیسی، تارکین وطن کے مسائل، ٹیکس اصلاحات اور صحت اصلاحات ہیں، پالیسیوں کی تکمیل کے لیے ٹرمپ کے صدارتی دور کے پہلے 100 دن سب سے اہم ہوں گے۔ صدر براک اوباما نے امید ظاہر کی کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی کے وسیع تر مفادات کے لیے اسٹریٹجک پالیسیوں پر عمل پیرا ہوں گے۔