ایمز ٹی وی (انقرہ) ترک انتظامیہ نے گزشتہ 6 ماہ کے دوران سوشل میڈیا پر دہشت گرد تنظیموں کی مبینہ حمایت اور ترک افسران پر تنقید کے الزام میں ایک ہزار 656 افراد کو حراست میں لیا ہے۔
ترک دفتر داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ان گرفتاریوں کے علاوہ 10 ہزار کے قریب سوشل میڈیا صارفین کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پولیس کی نشاندہی پر 3 ہزار 710 افراد کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جاچکی ہے جب کہ حراست میں موجود ان افراد میں سے 12 سو افراد کو آزمائشی طور رہا اور 767 افراد کو الزامات ثابت نہ ہونے پر بری کردیا گیا تاہم 84 افراد اب بھی پولیس کی حراست میں موجودہیں۔
ان افراد پر عائد کیے جانے والے الزامات میں دہشت گرد تنظیموں کی حمایت، لوگوں میں نفرت انگیز جذبات کو فروغ دینا، دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کی تشہیر، دہشت گرد گروہوں سے تعلق کا اعلان، ریاست اور ریاستی افراد کی تضحیک اور شہریوں کے تحفظ کو نشانہ بنانے جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
علاوہ ازیں عوامی پراسیکیوٹرز کو رپورٹ کیے جانے والے 10 ہزار افراد کے خلاف تحقیق اور قانونی کارروائی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
یاد رہے کہ ترکی کی جانب سے رواں سال جولائی میں بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ایمرجنسی نافذ کردی گئی تھی جس کے بعد سے قانون شکن گروہوں سے مبینہ روابط قائم کرنے پر ہزاروں شہریوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مغربی حکومتوں،انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانونی ماہرین کی جانب سے ترک حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اس کریک ڈاؤن پر مسلسل تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے، کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ کریک ڈاؤن سیاسی مخالفین اور ناقدین کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب انقرہ کی طرف سے ان تمام کارروائیوں کو ترکی میں بڑھنے والی دہشت گردی کے خلاف ضروری احتیاطی تدابیر قرار دیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال ترکی کے کئی اہم شہروں میں دھماکوں اور حملوں کا سلسلہ دیکھنے میں آیا جن کی ذمہ داریاں کرد جنگجوؤں یا داعش نے قبول کی۔
ترک حکومت کی جانب سے بیشتر اوقات اشتعال انگیز مواد کی تشہیر روکنے کے لیے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر پابندی عائد کی جاتی ہے تاکہ امن و امان اور عوامی تحفظ متاثر نہ ہو۔
یہ پابندیاں عموماً کسی دہشت گرد حملے اور بڑے کریک ڈاؤن کے بعد سامنے آتی ہیں، گذشتہ ہفتے بھی داعش کی جانب سے ترک فوجیوں کو جلانے کی ویڈیو منظرعام پر آنےکے بعد ترکی میں سوشل میڈیا ویب سائٹس کو کئی گھنٹوں کے لیے بند رکھا گیا۔