ایمزٹی وی (واشنگٹن) امریکا کی اپیلیٹ کورٹ نے ٹرمپ حکومت کی اپیل مسترد 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکامیں داخلے پر پابندی لگانے کے صدارتی حکم نامے پر عمل معطل رکھنے کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ 29 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے نظرثانی کی اس درخواست کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سات مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی کا صدارتی حکم نامہ امریکہ کے تحفظ کےلیے ضروری ہے؛ اور یہ کہ مذکورہ صدارتی حکم نامے پر عمل درآمد روکنے کا فیڈرل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدارتی وکیل ایسے ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ صدارتی حکم نامے کے تحت سفری پابندیوں کی زد میں آنے والے سات ممالک یعنی ایران، عراق، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں نے ماضی میں امریکہ آکر دہشت گردی کی ہو۔
فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ سماعت کے دوران صدارتی وکیل نے مختلف مواقع پر حکم نامے کی الگ الگ تشریحات کیں اور اس حکم نامے کی قانونی حیثیت سے متعلق ابہام پیدا کیا۔ فیصلے میں جج صاحبان نے لکھا: ’’اگرچہ صدر کی حیثیت سے ڈونلڈ ٹرمپ کا استحقاق ہے کہ وہ تارکینِ وطن اور قومی سلامتی سے متعلق پالیسیوں میں ضروری ردوبدل کریں لیکن اُن (ٹرمپ) کے دعوے اس سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ قومی سلامتی کے بارے میں (ان کے) خدشات پر نظرثانی ممکن نہیں، چاہے ان کے اقدامات آئین کے تحت فراہم کردہ حقوق اور تحفظ میں مداخلت کے مترادف ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
اپیل کورٹ میں شکست کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے غصے کے عالم میں ٹویٹ کیا: ’’کورٹ میں دیکھ لوں گا، ہماری قوم کا تحفظ داؤ پر لگا ہے۔‘‘
جبکہ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اپیل کورٹ کے فیصلے کو ’’سیاسی فیصلہ‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ اب وہ اپنا مقدمہ امریکی سپریم کورٹ میں لے کر جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر اب تک انہوں نے نئے اٹارنی جنرل جیف سیشنز سے بھی کوئی بات نہیں کی ہے لیکن آئندہ لائحہ عمل وہ ان ہی کے مشورے سے طے کریں گے۔