ھفتہ, 23 نومبر 2024


خلیجی معیشتوں کی سست روی کے اثرات پاکستان کو بھی برداشت کرنا پڑرہے

 

ایمز ٹی وی(ریاض ) ایک وقت تھا کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے محنت کشوں کی سب سے بڑی تعداد کا تعلق پاکستان سے ہوا کرتا تھا، لیکن کیا اب پاکستانیوں کے حصے کا روزگار بھارتی اور بنگلہ دیشی شہریوں کے ہاتھ میں جارہا ہے؟
عرب خلیجی معیشتوں کی سست روی کے اثرات بالآخر پاکستان کو بھی برداشت کرنا پڑرہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعلان کیا کہ جولائی 2016 سے جنوری 2017ءتک کے سات ماہ میں باہر سے آنے والی رقوم میں 2 فیصد کی کمی ہوئی۔ یہ کمی امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آنے والی رقوم میں ہوئی۔ خلیجی ممالک میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے کمی کا یہ سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ ہے ۔
سعودی عرب سے ترسیل زر میں 5.6 فیصد کمی ہوئی جس کے بعد یہ 3.7 ارب ڈالر (تقریباً 3.7کھرب پاکستانی روپے) پر آگئی۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات سے ترسیل زر 1.8فیصد کمی کے بعد 2.44 ارب جبکہ دیگر خلیجی ممالک سے 1.7 فیصد کمی کے بعد 1.34 ارب ڈالر پر آ گئی۔
بیرونی ممالک سے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم کا 65 فیصد حصہ خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں، جن میں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی سرفہرست ہیں۔ ان ممالک کو صرف تیل کی قیمتوں میں کمی کے مسئلے کا ہی سامنا نہیں ہے بلکہ یمن کی جنگ اور سعودی عرب کی ایران کے ساتھ کشیدگی بھی بحران میں اضافہ کررہی ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر غیر ملکیوں کی بڑی تعداد کو ملازمتوں سے نکالا جارہا ہے۔ تاحال جن پاکستانیوں کا روزگار متاثر ہوا ہے ان کی اکثریت انفراسٹرکچر کے منصوبوں سے وابستہ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دور میں کنسٹرکشن کے شعبے میں محنت مزدوری کرنے والے، گھریلو کام کرنے والے اور نیم ہنر مند ٹیکنیشن جیسے محنت کشوں کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ پاکستان جیسے ممالک سے جانے والے غیر ہنر مند اور نیم ہنرمند محنت کشوں کی جگہ جدید مشینری اور روبوٹ لے لیں گے۔
روزگار مارکیٹ بہت بڑی ہے اور پاکسان کو اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے اپنی افرادی قوت کو انگریزی اور عربی زبان کی تربیت دینا ہوگی اور انہیں بہتر تعلیم اور ٹیکنالوجی کے استعمال کی مہارت بھی دینا ہوگی۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران بھارت اور بنگلہ دیش نے یہی کیا ہے، اور اب ان کے بہتر تربیت یافتہ شہری پاکستانی شہریوں کی جگہ لے رہے ہیں۔
ہمارے متعلقہ حکام کی غفلت اور غیر ذمہ داری بھی ایک اہم مسئلہ رہی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کئی سالوں سے کویت میں پاکستانیوں پر پابندی لگائی جاتی رہی ہے جبکہ بھارتی اور بنگلہ دیشی شہریوں کو خوش آمدید کیاکہا جاتا رہا ہے۔ اس معاملے کی خبر سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت نے لی اور نہ ہی کسی اور نے اس مسئلے کے حل کی زحمت کی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنی غیر ہنر مند افرادی قوت کو اعلیٰ مہارت کی حامل افرادی قوت میں تبدیل کرنا ہوگا، اور ایسا جلد کرنا ہو گا کیونکہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment