ایمزٹی وی(تعلیم/ لندن)روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز نہ آٹھانے پر آکسفورڈ یونیورسٹی سے آنگ سانگ سوچی کا نام بھی ہٹا دیا گیا۔ یونی ورسٹی کے کالج سینٹ ہیوز کے طلبہ آنگ سانگ سوچی کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم کے خلاف آواز نہ اٹھانے پر خاموش نہیں بیٹھے ۔ آکسفورڈ کے طلبہ نے سوچی کا نام اپنے کالج کے کامن روم سے احتجاجاً ہٹا دیا۔ میانمار کی نوبل انعام یافتہ رہنما آنگ سانگ سوچی کا نام ہٹانے کے لیے باقائدہ طلبہ کی جانب سے ووٹنگ کی گئی، جس میں زیادہ تر طالب علموں نے سوچی کے خلاف ووٹ ڈالا جس کے بعد ان کا نام کامن روم سے ہٹادیا گیا۔ طلبہ نے قرارداد میں کہا کہ آنگ سانگ سوچی کا میانمار کی ریاست راکھائن میں روہنگیا افراد کے قتل عام، اجتماعی زیادتی اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کی مذمت نہ کرنا ناقابل قبول ہے۔ قراردار میں مزید کہا گیا کہ سوچی نے ان اصولوں کا ہی پاس نہیں رکھا جس کے لئے وہ کبھی آواز اٹھایا کرتی تھیں اس لیے ہم سوچی کی خاموشی اور ان کے ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر سخت مذمت کرتے ہیں۔ اس سے قبل اسی کالج نے اپنے مرکزی دروازے سے میانمارمیں جاری مسلمانوں کی نسل کشی پرمنافقت کا مظاہرہ کرنے اورخاموشی اختیار کرنے پر خاتون رہنما آنگ سان سوچی کا پورٹریٹ اتار دیا تھا۔ واضح رہے کہ آنگ سانگ سوچی نے اسی کالج سے 1967 میں تعلیم حاصل کی تھی جب کہ یونیورسٹی نے 2012 میں انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ دی تھی۔