ھفتہ, 23 نومبر 2024


تاج محل کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نےٹیپوسلطان کو ظالم، قاتل قرار دے دیا

 

ایمزٹی وی(نئی دہلی)بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی جہاں ملک میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے وہیں اپنی ملکی تاریخ کو مسخ کرنے کے درپے ہے۔ گزشتہ چند روز سے بی جے پی کے وزرا اور رہنماؤں نے دنیا کے ساتویں عجوبے اور بھارت کے منفرد تفریحی مقام تاج محل کو اپنی سیاحت کے کتابچے سے نکال باہر کیا جب کہ ایک وزیر نے تو تاج محل کو بھارتی تاریخ پر بدنماداغ قرار دے دیا۔ بی جے پی کے رہنما بھارت کی تاریخ کو تبدیل کرنے کے لئے ہرطرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں اور اب 18 ویں صدی میں ریاست میسور کے بادشاہ اور انگریزوں کے خلاف 4 جنگیں لڑنے والے ٹیپوسلطان بھی ہندو انتہا پسندی کے نشانے پر آگئے ہیں۔
ریاست کرٹانک میں بی جے پی کی حزب مخالف جماعت کانگریس نے 2015 میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کو ریاستی سطح پر منانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم 2015 سے اب تک یہ فیصلہ متنازعہ بنا ہوا ہے۔ کانگریس نے ایک بار پھر رواں برس 10 نومبر کو ریاست میں ٹیپو سلطان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے ریاست سمیت مرکز کے تمام رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا ہے تاہم بی جے پی کے مرکزی رہنما اننت کمار ہیگڑے نے ناصرف تقریب میں شرکت سے معذرت کردی بلکہ زہر اگلتے ہوئے ٹیپوسلطان کو ظالم، قاتل قرار دے دیا۔
اننت کمار ہیگڑے نے ریاستی حکومت کو خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ مجھے اس طرح کی شرمناک تقاریب میں مدعو نہ کیا جائے اور آئندہ بھی اس بات کا خیال رکھا جائے، حکومت کو خط لکھنے سے بھی جی نہ بھرنے پر اننت کمار نے ٹویٹر پر دعوت نامے کو پوسٹ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ میں نے ایک ظالم، قاتل کو عزت دینے والی تقریب میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے کرناٹک حکومت کو مطلع کردیا ہے۔
بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ شوبھا کرندلا نے بھی ہیگڑے کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹیپوسلطان ایک ہندومخالف رہنما تھے جن کے یوم پیدائش کا انعقاد ریاست کا غلط اقدام ہے۔
دوسری جانب کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدھارمیا کا کہنا ہے کسی وزیر کو حکومت میں رہتے ہوئے اس قسم کا خط نہیں لکھنا چاہیے۔ ٹیپوسلطان کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کے لئے تمام مرکزی اور ریاستی وزرا کو دعوت نامے بھیجے گئے ہیں اس تقریب میں شرکت کرنا یا نہ کرنا ان کی اپنی مرضی پرہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment