ھفتہ, 23 نومبر 2024


ایک اور ایٹمی سائنسدان "کری کورئن" چل بسے

 

ایمزٹی وی(امریکا)سڑک پر پیدا ہونے والے ایٹمی سائنسدان کرک کری کورئن 97 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
دربدری کے ہنگام میں ترکی کی سڑک پر پیدا ہونے والے یہ عظیم کیمیائی سائنسداں امریکا میں ایٹمی ہتھیاروں کے ایک بڑے تحقیقاتی مرکز’ لاس الموس ‘ میں سالوں سے فرائض انجام دے رہے تھے۔
لاس الموس نیشنل لیبارٹری کے حکام نے ان کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ تین روز قبل ان کا انتقال ان کے اپنے گھر میں ہوا جہاں وہ 70 سال سے قیام پزیر تھے۔
یہ لیجنڈ 1921 میں ایسے حالات میں پیدا ہوئےجب جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کی ارمنی آبادی کاقتل عام ، ملک بدری اور قید و بند کی صعوبتیں جاری تھیں،ان حالات میں ان کے والدین کو ملک چھوڑنا پڑا ۔
چند کپڑوں کی گتھڑی لادے ان کے والدین مستقل جگہ کی تلاش میں اگلے چار سال تک ایک ملک سے دوسرے ملک پناہ لیتے رہے۔
غربت اور دربدری کے مسائل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کری کورئن نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ، انہوں نے کیمیسٹری میں گریجوئٹ کیا جس کے بعد انہیں امریکا کی ایسی لیب میں کام مل گیا جہاں انتہائی حساس یورینیم بنایا جاتا ہے۔
ان کے چار دہائیوں پر مشتمل کیرئیر میں انہوں نے یورینیم پر تحقیق کی اور پھر خلائی ایپلی کیشنز کے لئے جوہری تھرمل راکٹ تیار کیا۔اس کے علاوہ وہ ایک انٹیلی جنس یونٹ کے سیکورٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں،ان کے کام کے صلے میں انہیں خراج تحسین بھی پیش کیاگیا۔
ان کے ساتھ کام کرنے والے اور لیب کے ڈائریکٹر نے بہترین الفاظ میں ان کے کام کو سراہا اور اعتراف کیا کہ ان کے پاس ایسا پائیدار علم تھا جو مستقبل کے لئے اثاثے کی حیثیت اختیار کر گیا۔
2017 میں انہوں نےاپنی نجی زندگی کو یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ ہم جو کچھ سوچتے ہیں ہمیشہ اس کے بر عکس ہوتا ہے، میں اپنے والدین کے بارے میں سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ انہوں نے کس طرح یہ سب کیا، ملک سے دربدر ہونے کا غم اور پھر سڑک پر میرا پیدا ہونا مجھے سوچنے پر مجبور کرتا ہے‘۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرے والدین نےمجھے درست کام کرنے کی اہمیت اور اپنے ساتھی کا سہارا بننے کا درس دیا،مجھے امید ہے کہ میں نے ہمیشہ ایسا ہی کیا۔
وہ کہتے تھے کہ’ انتہائی تکلیف دہ ہو جاتا ہے جب آپ کا تعلق کہیں سے بھی نہ ہو ‘۔
اگر پوچھا جائے کہ کری کورئن کی علم کی پیاس کہاں سے شروع ہوتی ہے تو اس کا جواب ہو گا’ تجسس‘۔انہیں ہر چیز کا تجسس رہتا تھا، انہیں پڑھائی سے خاص شغف تھا۔
ان کے پڑھائی کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتاہے کہ اگر وہ کوئی کتاب نہیں پڑھ پاتے تھے تو ٹیپ پر اس کو سن لیا کرتے تھے۔
 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment