ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 15 نومبر کو قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا ، وزیر اعظم نے اپنے خطاب اور عدالتی جواب میں قطری خط اور سرمایہ کاری کا نہیں بتایا۔ وزیر اعظم نے کہا جدہ اور دبئی میں سرمایہ کاری کا پورا ریکارڈ ہے مگر جدہ فیکٹری ریکارڈابھی تک عدالت میں نہیں دیا گیا۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا یہ لازمی تھا وزیر اعظم اپنے دفاع کا ہر نقطہ پارلیمنٹ میں بیان کرتے ؟
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ شریف خاندان نے آف شور کمپنیز 1993ءسے لنک کرنے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور شریف خاندان نے آف شور کمپنیاں 2006ءسے تسلیم کی ہیں جس پر نعیم بخاری نے عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ بنک ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔بڑے میاں صاحب کے پاس قطر کیلئے سرمایہ تھا ہی نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کاروبار میاں شریف کرتے تھے تو کیا بچوں کی ذمہ داری ہے کہ منی ٹریل دیں ؟نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ 1997ءمیں مریم نواز اور حسین نواز حدیبیہ پیپرز ملز میں ڈائریکٹر تھے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حدیبیہ ملز کے التوفیق کیس میں مریم اور حسین فریق نہیں تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ نوازشریف نے کیسے پیسہ باہر بھجوایا ؟دبئی ، قطر اور لندن کا تمام سرمایہ 2004ءتک میاں شریف کا تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کا سوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔دبئی قطر اور لندن کا تمام سرمایہ 2004ءتک میاں شریف کا تھا جس پر نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ بڑے میاں صاحب کے پاس قطر کیلئے سرمایہ تھا ہی نہیں۔