اسلام آباد ( ایمز ٹی وی) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران آدھے گھنٹے کیلئے وقفہ کر دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری ہیں ، عدالت نے سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کر دیا ہے جس کے بعد وکیل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ کمرہ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ، شیخ رشید ، جہانگیر ترین ، شاہ محمود قریشی ، نعیم بخاری ، نعیم الحق ، وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب ، طلال چودھری ، دانیال عزیز سمیت دیگر رہنما موجود ہیں ۔ وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیر اعظم کا نہیں نوازشریف کا وکیل ہوں ، ججز میرا انتظار کر رہے ہیں ، مناسب نہیں کہ انہیں انتظار کراﺅں ۔ ”میں آپ لوگوں سے لڑ نہیں سکتا “۔ جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ مخدوم علی خان کیا معجزہ ہے ؟ کیوں وکلاءآج پیش نہیں ہوئے تو مخدوم علی خان نے جوا ب دیا کہ جناب وکلاءوالا کل کا معاملہ ہے ۔ جناب وکلاءنے آج پھر ہمیں روکا اور اٹارنی جنرل آفس میں لے گئے ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ڈی جی اور سیکرٹری ہاﺅسنگ کو بلایا ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیر اعظم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز اپ نے پارلیمانی کارروائی عدالت میں چیلنج نہ ہوسکنے کا ذکر کیا تھا ، نیوزی لینڈ کی اسمبلی کی کارروائی کو بطور شواہد پیش کرنے کا کہا گیا ۔ نیوزی لینڈ کے ارکان اسمبلی نے فلو ر پر تقریر اور میڈیا پر کہا اپنی بات پر قائم ہیں ۔ عدالت نے قرار دیا پارلیمنٹ میں تقریر ارکان کیخلاف بطور ثبوت استعمال ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ برطانوی عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیںہو گا ۔ آئین کے آرٹیکل 68کے تحت ججز کا کنڈکٹ بھی پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں آتا ۔ وزیر اعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 68اور 204ججز کے کنڈکٹ پر بات کرنے سے روکتے ہیں ۔صدر ، وزیر اعظم اور گورنر کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے ، وزیر اعظم کو استثنیٰ اور مملکت چلانے پر ہوتا ہے ۔ انہوں نے چوہد ری ظہور الٰہی کیس کا حوالہ بھی دیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ظہور الٰہی کیس میں وزیر اعظم نے تقریر اسمبلی میں نہیں کی تھی ۔ ظہور الٰہی کیس کا حوالہ دینے سے متفق نہیں جس پر وکیل نے کہا کہ وزیراعظم نے آرٹیکل 66کے بجائے 248کے تحت استثنیٰ مانگا ہے ۔ آرٹیکل 19کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے تو بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کیس آرٹیکل 19کے زمرے میں نہیں آتا ۔”آپنے دلائل کو آپنے کیس تک محدود رکھیں “۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 19اظہار رائے کا حق دیتا ہے ، آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ بھارت میں سپریم جوڈیشل کونسل نہیں ہوتی تاہم بھارت میں جج کو ہٹانے کیلئے ایوانوں سے قرار داد کی منظوری ضرور ی ہے جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بھارت میں بحث جاری ہے کہ احتساب کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل بنائی جائے ۔ پارلیمنٹ کو ججز کا اختیار دینا غیر محفوظ ہو گا ۔ اس کے بعد عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا