ایمزٹی وی (نیوز ڈیسک)پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق حزب اسلامی کے ماضی میں پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں اور افغانستان میں ابھی تک سرگرم اس جہادی تنظیم کے رہنما حکمت یارکی طرف سے ’سعودی حمایت میں ہزاروں فائٹرز یمن بھیجنے کے عہد‘ کا اظہار آج بدھ آٹھ اپریل کو کیا گیا۔
افغانستان پر سوویت قبضے کے دور میں جب افغان مزاحمت کاروں کو ’مجاہدین‘ کہا جاتا تھا، حزب اسلامی کا شمار ملک کے بڑے سنی مسلح گروپوں میں ہوتا تھا۔ پھر کئی سال بعد 2001ء میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد گلبدین حکمت یار ایک بار پھر سرگرم ہو گئے تھے اور تب ان کے حامی جنگجوؤں نے مغرب کی حمایت یافتہ کابل میں نئی حکومت اور امریکا کی قیادت میں نیٹو کے اتحادی دستوں کے خلاف حملے شروع کر دیے تھے۔
برسوں پہلے افغانستان میں وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے گلبدین حکمت یار نے بدھ کے روز اپنے ایک آن لائن بیان میں کہا، ’’اگر عراق یا یمن جانے کا کوئی امکان ہے تو افغانستان سے ہزاروں مجاہدین وہاں جانے کو تیار ہوں گے تا کہ اپنے مسلمان بھائیوں کا دفاع کرتے ہوئے ایرانی مداخلت کا مقابلہ کر سکیں۔‘‘
اے ایف پی کے مطابق حکمت یار نے اپنے اس بیان میں کہا، ’’افغانستان، عراق، شام اور لبنان کے بعد تہران نے اب یمن میں بھی مداخلت شروع کر دی ہے اور وہ وہاں مسلم دشمن دستوں کی حمایت کر رہا ہے۔‘‘
حزب اسلامی افغانستان میں سوویت یونین کے فوجی دستوں کے خلاف ’افغان مجاہدین کے اتحاد‘ کا حصہ پہلی مرتبہ 1980ء کی دہائی میں بنی تھی۔ افغان جنگجوؤں کے ماضی کے اس اتحاد کو تب مالی وسائل سعودی عرب اور امریکا کی طرف سے فراہم کیے جاتے تھے اور ان کے لیے رابطہ کاری پاکستان خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کرتی تھی۔
یمن میں صدر منصور ہادی کے مخالف ایران نواز حوثی شیعہ باغی تقسیم کی شکار سرکاری فوج میں سابق صدر علی عبداللہ صالح کے حامی دستوں کے ساتھ مل کر ملک کے وسیع تر علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔ ان باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے بین الاقوامی عسکری اتحاد کی طرف سے گزشتہ قریب دو ہفتوں سے فضائی حملے کیے جا رہے ہیں۔
اس عسکری اتحاد میں شمولیت کے لیے سعودی عرب نے پاکستان سے بھی باقاعدہ درخواست کر رکھی ہے، جس پر اسلام آباد میں نواز شریف حکومت نے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ اس موضوع پر پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں بحث گزشتہ پیر کے دن سے جاری ہے۔ نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ یمنی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری اتحاد میں پاکستان کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ ملکی حکومت نہیں بلکہ قومی پارلیمان کرے گی۔