اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی اقدام قتل کیس میں ملزم شاہ حسین کو مجرم قرار دیتے ہوئے اس کی بریت کا فیصلہ کالعدم کردیا اور 5 سال قید کی سزا بحال کردی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خدیجہ صدیقی حملہ کیس کی سماعت کی۔ خدیجہ صدیقی پر ناکام قاتلانہ حملے کا ملزم شاہ حسین عدالت میں پیش ہوا۔
خدیجہ صدیقی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ہائیکورٹ نے مقدمہ کے مکمل شواہد کو نہیں دیکھا اور ثبوت کا درست جائزہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہائیکورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خدیجہ صدیقی ملزم کو جانتی تھی وہ کلاس فیلو بھی تھے، اس کے باوجود ملزم کو 5 دن کی تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیوں کیا گیا۔
خدیجہ کے وکیل نے کہا کہ حملے کے وقت خدیجہ صدیقی حواس میں نہیں تھی، اس نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قرار دیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خدیجہ کی گردن کے اگلے حصے پر کوئی زخم نہیں تھا، وہ بول سکتی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ہائی پروفائل کا لفظ کئی مرتبہ استعمال ہوا، کیا ہائی پروفائل کیلئے قانون بدل جاتا ہے، جرم جرم ہوتا ہے ہائی ہو یا لو پروفائل ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم آخر خدیجہ کو کیوں مارنا چاہتا تھا، وہ چاہتا تو خدیجہ کو ایسی جگہ مار سکتا تھا جہاں کوئی نہ ہوتا، گولی مارنا آسان لیکن خنجرمارنا شدید اشتعال پرہوتا ہے، عام طور پر قتل کی وجہ ہوتی ہے کہ میری نہیں تو کسی کی نہیں، دوسری عمومی وجہ لڑکی کی طرف سے بلیک میلنگ ہوتی ہے، خدیجہ کے کیس میں دونوں وجوہات سامنے نہیں آئیں۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کسی کلاس فیلو نے کیس میں گواہی نہیں دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ گاڑی سے دو بال بھی ملے تھے کیا ان کا ڈی این اے ہوا؟۔ خدیجہ کے وکیل نے کہا کہ بالوں کو فرانزک لیب بھجوانے کا کہا گیا تھا لیکن فرانزک لیب کے بقول انہیں بال موصول نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خطے کی بہترین اور دنیا کی دوسری بہترین فرانزک لیب لاہور میں ہے، پنجاب فرانزک لیب پر ہمیں فخر ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ نے سماعت مکمل ہونے کے بعد خدیجہ کی اپیل منظور کرتے ہوئے شاہ حسین کو مجرم قرار دے دیا اور 5 سال قید کی سزا برقرار رکھی۔ پولیس نے شاہ حسین کو کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔