ایمزٹی وی(اسلام آباد)چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق از خود نوٹس کیس سماعت کی۔سماعت کے دوران عدالت نے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے سے متعلق وفاق اور صوبوں کی رپورٹ مسترد کردی۔اس حوالے سے جیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ غیر ملکی قرض لے کر منصوبے بن جاتے ہیں چلانے کے لئے فنڈز نہیں دیئے جاتے، میونسپل اداروں میں گھوسٹ ملازمین کی بھرمار ہے، بڑی مچھلیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا، شہروں میں کچرے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس سے آلودگی پھیلتی ہے، کراچی میں ہر طرف کچرے کے ڈھیر ہیں۔ س اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ خیبرپختونخوا کے اسپتالوں میں صفائی کا برا حال ہے کیا عدالت شہر شہر جا کر صفائی ستھرائی کے احکامات جاری کرے۔ ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ پشاور میں تین واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس غیر فعال ہیں۔ اے ڈی بی سے قرض لے کر پلانٹس لئے گئے تھے لیکن اب وسائل نہ ہونے کے باعث یہ بند پڑے ہیں ،جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہمیشہ بھیک مانگ کر ہی گزارا کیا جائے گا اور اے ڈی بی ہر سال ہمیں قرضے ہی دیتا رہے گا، صوبائی حکومت فنڈز جاری کیوں نہیں کرتی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ خیبرپختونخوا کی رپورٹ میں لفظ سونامی کیا ہے جس پر کے پی کے حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ یہ صوبے میں درخت لگانے کی مہم کا نام ہے۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے کہ سونامی کا مطلب تو تباہی ہے۔