ھفتہ, 23 نومبر 2024


قطری شہزادے کے خط کے بعد شکوک و شبہات سو فیصد بڑھ گئے

 

 

ایمزٹی وی(لاہور)اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ قطری شہزادے کے خط کے بعد شکوک و شبہات سو فیصد بڑھ گئے ہیں تاہم جواب دینا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے اور اب بال انکے کورٹ میں ہے ۔ اگر ہم نے دھرنے میں عمران خان کا ساتھ دیا ہوتا تو نظام ختم ہو جاتا ۔ نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم ہیں تاہم اپنے آپ کو بچانے کیلئے ایک چھوٹے سے ملک کا خط پیش کر دینا شرم اور افسوس کی بات ہے ۔پیپلز پارٹی کو آج بھی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت سمجھا جاتا ہے ۔

فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں خطاب کیا اور ٹی وی پر بھی قوم سے مخاطب ہوئے مگر پوری داستان میں قطری شہزادے کا تو ذکر ہی نہیں تھا، جانےو الے آرمی چیف کو اچھے حالات نہیں ملے اور نہ ہی آنے والے آرمی چیف کو اچھے حالات ملے ہیں تاہم آرمی چیف کی تبدیلی نارمل چیز ہے ۔ انکے ہمراہ قمر الزمان قائرہ بھی موجود تھے ۔ اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے چار چھوٹے سے مطالبات پیش کیے ہیں ”حکومت ہمارے چار مطالبات تسلیم کرے اور باقی ڈیڑھ سال کا عرصہ بھی آرام سے گزارے “۔حکومت کے لاڈلے وزیر وہی بیانات دے رہے ہیں جو بینظیر بھٹو کے خلاف دیے جاتے تھے ۔”نواز شریف بولے گا تو جواب میں خود دونگا “۔

ایک سوال پر خورشید شاہ نے کہا کہ دیکھنا یہ ہے نواز شیرف اب 90 کی دہائی سے بچنا چاہتا ہے اور پارلیمنٹ میں اکر کوئی ثبوت دینا چاہتا ہے یا نہیں کیونکہ بال اب انکے کورٹ میں ہے اور دیکھنا ہے وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں تاہم ہم نے 90کی سیاست چھوڑ دی مگر نواز لیگ نے نہیں چھوڑی ۔”پیپلز پارٹی نے ہمیشہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو ترجیخ دی“۔ ایک وقت تھا جب حکومت کو ھکا دینے کی بھی ضرورت نہیں تھی بس خاموش رہنے کی ضرورت تھی تو حکومت چلی جاتی مگر ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلاول پارلیمنٹ میں نہیں ہیں تو جمہوریت مکمل نہیں تاہم سابق صدر آصف علی زرداری بھی جلد وطن واپس آئیں گے ۔ ہم 24ویں ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے کیونکہ اگر ہم نے ایسی ترمیم کی حمایت کرنی ہے تو پھر توہمیں سیاست چھوڑ دینی چاہئے۔ قمرالزمان قائر ہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہم 90کی دہائی کی سیاست کی طرف نہیں جانا چاہتے تاہم اگر مجبور کیا گیا تو ہم سے زیادہ تاریخ کوئی نہیں جانتا ۔

 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment