ھفتہ, 23 نومبر 2024


ایساپاکستان چاہتے ہیں جس کاتصورقائداعظمؒ نے پیش کیا، قمرجاویدباجوہ

ایمز ٹی وی(لاہور) 26نومبرکی شام لیفٹیننٹ جنرل قمرجاویدباجوہ اپنی اہلیہ عائشہ،بیٹوں سعداورعلی کیساتھ اپنی والدہ کی قبرپرفاتحہ خوانی کیلئے گئے ،


اسی دوران انہیں فون کال موصول ہوئی کہ وزیراعظم نوازشریف ان کیساتھ ملاقات کے خواہشمندہیں،چنانچہ56سالہ لیفٹیننٹ جنرل اورانکی فیملی فوری طورپرقبرستان سے اپنے گھرکی طرف روانہ ہوئی،جہاں انکے دوست واجنبی پہلے ہی جمع تھے جوایک’ان کہی‘پیش گوئی بھی کررہے تھے ،اس دوران جنرل کے اہلخانہ اچانک واردہونیوالے مہمانوں کی تواضع میں مصروف ہوگئے جبکہ قمرجاویدباجوہ نے اپنی فوجی وردی پہنی اوروزیراعظم ہاﺅس کی طرف روانہ ہوگئے۔

جنرل باجوہ کے 27سالہ صاحبزادے سعدجواسلام آبادمیں بیرسٹرہیں نے ’نیوزویک‘کوبتایاکہ وزیراعظم ہاﺅس سے یہ اطلاع اچانک ہی آئی جبکہ انکے والدآرمی چیف کے عہدہ کیلئے کوئی فیورٹ امیدوارنہیں تھے ،بلکہ وہ سنیارٹی میں چوتھے نمبرپر تھے اور انہیں اپنے انتخاب کی بہت ہی کم توقع تھی،تاہم تین روزبعدانہیں دنیاکی چھٹی بڑی فوج کے 16 ویں سربراہ کی حیثیت سے نامزدکردیاگیا۔سعدکاکہناتھا ہرآرمی چیف کے کام کرنے کااپناایک طریقہ کارہوتاہے جبکہ ہمارے والد آئین کی بالادستی پریقین رکھتے ہیں اورانہوں نے ہمیشہ یہی کہاکہ وہ ایساپاکستان چاہتے ہیں جس کاتصورقائداعظمؒ نے پیش کیا،ایساپاکستا ن کہ جہاں ادارے شخصیات سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوں۔

11نومبر1960کو کراچی کے ایک فوجی خاندان میں پیداہونیوالے جنرل باجوہ اپنے 5بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں،انہوں نے 1978 میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیااور2سال بعد16بلوچ رجمنٹ میں تقررپایا ،جنرل باجوہ ایک ایسے وقت سربراہ پاک فوج کے عہدہ پرفائزہوئے جبکہ بھارتی فورسزکیساتھ لائن آف کنٹرول اورورکنگ باﺅنڈری پرتقریباًروزانہ ہی فائرنگ وگولہ باری کاتبادلہ ہورہاتھا،تاہم ایل اوسی کے دفاع کی ذمہ دار10کورکے کمانڈراورشمالی علاقہ جات میں تعیناتی کے دوران اپنے سابق تجربات کی بناپرجنرل باجوہ اس ساری صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں،دوسری جانب بھارتی عسکری حکام بھی جنرل باجوہ کوعزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں،کیونکہ2007 میں جنرل باجوہ نے جمہوریہ کانگومیں اقوام متحدہ امن مشن میں خدمات سرانجام دیں جہاں انکے ساتھ جنرل بکرم سنگھ نے بھی کام کیاجوبعدمیں بھارت کے آرمی چیف بنے ،جنرل بکرم نے جنرل باجوہ کو ایک شانداراورپیشہ ورفوجی قراردیا۔

جنرل قمرجاویدباجوہ کے 25سالہ بیٹے علی جوکہ پٹرولیم انجینئرہیں کاکہناتھا یہ احترام دوطرفہ تاریخ سے وسیع تر آگاہی اورعالمی حالات پرجنرل باجوہ کی گہری نظر کے باعث ہے ،انکی لائبریری میں موجودتقریباًتمام کتابیں تاریخ،سفارتکاری اورسیاست کے موضوعات پرمبنی ہیں،جنرل باجوہ کے دونوں بیٹوں نے اپنے والدکوبہت زیادہ مطالعہ کرنیوالاشخص قراردیتے ہوئے بتایاکہ انکے بیڈٹیبل پربھی ہمیشہ کئی کتابیں پڑی ہوتی ہیں۔سعدکے مطابق انکے والدیورپی تاریخ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں


جبکہ انہوں نے انڈیاکے حوالے سے بھی بہت کچھ پڑھا،اسی لئے ہم نے گزشتہ ماہ انکی سالگرہ پرایک کتاب ہی تحفہ میں دی جوکہ بھارت کے حوالے سے ہے اورہم جانتے ہیں کہ وہ اسے پڑھ کربہت لطف اندوزہونگے۔سعد کامزیدکہناتھا انہیں(جنرل باجوہ)کومطالعہ کی عادت بہت بعدمیں پڑی جبکہ والدنے ہمیں بتایاکہ وہ سکول میں کچھ ایسے ہونہارطالبعلم نہیں رہے


البتہ ملٹری اکیڈمی میں شروع دن سے ہی انکی کارکردگی بہت شانداررہی،ان میں ہمیشہ سے سخت کام کرنے کی بڑ ی زبردست صلاحیت موجود ہے جبکہ وہ جانفشانی سے کام کرنے کومحض اہلیت پرترجیح دیتے ہیں۔جنرل باجوہ کوکرکٹ میں دلچسپی ہے ،دیکھنے میں بھی اورکھیلنے میں بھی،جبکہ وہ خاص طورپرویون رچرڈاورجاویدمیاندادکوپسندکرتے ہیں،انہیں نورجہاں کے نغمے سننے کابھی بہت شوق ہے اور وہ ماضی میں انہیں گنگناتے بھی تھے تاہم ایک چیزانہیں ہمیشہ ناپسندرہی اوروہ ہے غیرذمہ داری۔

فیملی کامزیدکہنا تھاکہ بطورآرمی چیف جنرل باجوہ کاسب سے زیادہ فوکس انتہاپسندی پررہے گاجبکہ اپنے پیشروجنرل راحیل شریف کی طرح جنرل قمرجاویدباجوہ نے بھی اپنے دفترمیں سانحہ آرمی پبلک سکول پشاورکے شہیدبچوں کی تصاویر بدستورلگارکھی ہیں۔سعدنے بتایاکہ سانحہ16دسمبرکی شام جب انکے والددفترسے گھرلوٹے تووہ بہت پریشان تھے جبکہ وہ باربارکہہ رہے تھے ’بہت ہوچکا،اب اسکاخاتمہ ہوناچاہئے اوردہشتگردی کیخلاف اتفاق رائے ہونابہت ناگزیرہے کیونکہ یہ پاکستان کی بقاکیلئے بہت بڑاخطرہ ہے

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment