ایمزٹی وی(لاہور)سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے آلودہ پانی دریاؤں میں پھینکنے کیخلاف از خود نوٹس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ لاہور کے شہریوں کو پینے کیلئے گندہ اور زہریلا پانی مل رہا ہے، 10 سال سے حکومت مسلسل کام کر رہی ہے، اب تک اس نے کیا پیش رفت کی، یہ لوگوں کی زندگی اور موت کا معاملہ ہے، کارکردگی کا اشتہار چلاتے ہیں، تو جو نہیں کیا اس کا اشتہار بھی چلائیں، یہ حالت ہے کہ ڈیٹ شیٹ پر بھی وزیر اعلی کی تصویریں چھپتی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شہباز شریف کو تصویریں چھپوانے کا زیادہ شوق ہے تو ہمیں پیش ہو کر وضاحت کریں، کارکردگی دکھانی ہے تو کام کر کے دکھائیں، تصویریں چھپوا کر نہیں، سیاسی جماعت اپنے پیسے سے تشہیر کرے عوام کے ٹیکس سے نہیں، پیسا قوم کا تو تصویریں وزیراعلیٰ کی کیوں لگائی جارہی ہیں، یاد رکھیں ہم نیب کو پنجاب حکومت کے اشتہارات کی تحقیقات کا حکم دے سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اورنج ٹرین پر اربوں روپے لگا دیے لیکن ادھر صحت پر دھیان بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے، اورنج ٹرین بنائیں موٹر وے بنائیں مگر عوام کی صحت کی طرف بھی توجہ دی جائے، وزیر اعلی شہباز شریف، چیف سیکرٹری اور واسا کے لوگ بتائیں کہ اس طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی، میں اسپتالوں میں کیوں نہ جائوں، کسی نے تو عوام کا حال دیکھنا ہے، لوگ کس طرح تکلیف میں ہیں، وزیراعلی یا افسر کتنی بار اسپتالوں میں گئے ہیں، جن کا یہ کام ہے اگر وہ نہیں کریں گے تو کوئی تو کرے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ حکمرانوں کو اندازہ نہیں کہ ہاکستان قرضوں میں ڈوب چکا ہے، قرضوں میں ڈوبی قوم کا پیسہ حکمران ذاتی تشہیر پر خرچ کر رہے ہیں، اب بھی وقت ہے حکومتیں اپنی ترجیحات درست کرلیں، قرضوں کی صورتحال دیکھ کر عدالت پریشان اور خوفزدہ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اورنج ٹرین پر کتنےروپے لگیں گے؟۔ چیف سیکرٹری نے بتایا کہ اورنج ٹرین پر 180 ارب روپے لاگت آئے گی۔ سپریم کورٹ نے 23 مارچ تک صاف پانی کے منصوبوں کے پی سی ون جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 31 مارچ کو دوبارہ سماعت کریں گے، تمام ڈیٹا ریکارڈ پر ہونا چاہئے۔