اتوار, 24 نومبر 2024


شہرِ قائد کچرے کا ڈھیر،چیف جسٹس برہم

 

ایمزٹی وی(کراچی)سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں واٹر کمیشن کی عبوری رپورٹ کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سندھ سے کہا کہ واٹر کمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، سندھ میں کیا ہورہا ہے، ہمارے سامنے بڑی بھیانک تصویر آرہی ہے، مجھے ایک ہفتے میں کراچی صاف چاہیے۔
چیف سیکریٹری سندھ نے کہا کہ یہ سب کام اور ذمہ داریاں وسیم اختر کی ہیں لیکن ہم کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی وسیم اختر سے پوچھا کہ گندگی ہٹانا اور صفائی کس کا کام ہے۔ وسیم اختر نے جواب دیا کہ سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں، شہر کا برا حال ہے، نالے بند ہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، کتوں کی بھرمار ہے، جب کہ بلدیہ عظمی کے پاس نہ اختیارات ہیں نہ فنڈز۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کام ڈی ایم سیز کا ہے اور ڈی ایم سیز سندھ حکومت کے ماتحت ہیں، اس کا مطلب ہے وسیم اختر ٹھیک کہہ رہے ہیں، لوگوں میں شعور بھی پیدا کریں کہ کچرا کہاں پھینکنا ہے۔ چیف سیکرٹری نے اعتراف کیا کہ شہر میں روزانہ 5 ہزار ٹن کچرا نہیں اٹھایا جارہا اور ایسی سڑکیں بھی ہیں جن پر 6 ماہ سے جھاڑو تک نہیں لگی۔
شہری نے عدالت میں کراچی کے علاقے باتھ آئی لینڈ کی تصاویر پیش کیں جن میں کچرا ہی کچرا نظر آرہا ہے۔ ڈاکٹر نواز علی ملاں نے کہا کہ کراچی میں ایک لاکھ سے زائد لوگ چکن گونیا میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس جب کراچی آتا ہوں تو باتھ آئی لینڈ میں ہی رہتا ہوں، کل ساری رات میں مچھر مارتا رہا، جس مچھر کو مارتا اس میں خون بھرا ہوتا تھا، مچھر امیر غریب نہیں دیکھتا، مچھر تو کسی کو بھی متاثر کرے گا، ہم تنازع میں نہیں پڑیں گے، سیاست سے بالا ہو کر سب سوچیں، جس کی جو ذمہ داری ہے اسے ادا کرنا ہوگی، مشترکہ کاوشوں سے کراچی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کراچی کے شہریوں سے گزارش ہے میری تعریفی تشہیری مہم بند کریں، میں اپنی تعریفی مہم نہیں چاہتا، میں تو اپنا فرض ادا کررہا ہوں۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment