منگل, 30 اپریل 2024


مرکزی بازاروں میں بارش کا پانی اور کیچڑ جمع

ایمزٹی وی(بزنس)کراچی کے مرکزی بازاروں میں بارش کا پانی اور کیچڑ جمع ہونے سے تجارتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہی ہیں۔ تاجربرادری نے صوبائی وزیر بلدیات، کمشنر کراچی اور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی سے مطالبہ کیا ہے کہ بازاروں سے بارش کے پانی کی نکاسی اور صفائی ستھرائی کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ سندھ تاجر اتحاد کے جنرل سیکریٹری اسماعیل لالپوریہ ایم اے جناح روڈ سے ٹاور تک واقع کراچی کے تمام مرکزی بازار نشیب میں واقع ہونے کے ساتھ ان بازاروں میں برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی اور کیچڑ جمع ہوگئی ہے۔

بارش کا پانی دکانوں اور گوداموں میں داخل ہونے سے تاجروں کو مالی نقصان کا سامنا ہے۔ شہر کے مرکزی بازار جامع کلاتھ، آرام باغ، اﷲ والا مارکیٹ، پیپر مارکیٹ، لائٹ ہاؤس، جوڑیا بازار، چھانٹی گلی، میڈیسن مارکیٹ میں بارش کا پانی جمع ہوگیا ہے اور دکانداروں کا اپنی دکانوں اور گوداموں تک پہنچنا محال ہے۔ ان علاقوں میں بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے پیشگی اقدامات کا ایک ماہ قبل ہی مطالبہ کیا گیا تھا تاہم حکومت اور انتظامیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

بارش کا پانی سیوریج کے پانی کے ساتھ مل کر بازاروں میں بدبودار کیچڑ کی شکل میں جمع ہوگیا ہے اور یہ بازار گندے جوہڑ کا منظر پیش کررہے ہیں۔ دکاندار اپنی مدد آپ کے تحت صفائی ستھرائی اور بارش کے پانی کی نکاسی کے کاموں میں مصروف ہیں۔ سندھ حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور نہی ہی صفائی کیلیے عملہ و مشینری فراہم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے ان مرکزی بازاروں میں تجارتی سرگرمیاں جمعہ کے روز سے دگرگوں ہے اور پیر کے روز بھی کاروباری سرگرمیاں مکمل طور پر بحال ہونا مشکل ہے۔

بازاروں کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ اگر دکاندار کسی طرح دکانیں کھول بھی لیں تو گاہک ان بازاروں کا رخ نہیں کرسکتے کیونکہ بازاروں کے داخلی راستوں پر بدبودار پانی جمع ہے۔ تاجروں کے مطابق شادی بیاہ کے سیزن کے لیے خریداری اپنے عروج پر ہے۔ دوسری جانب جشن آزادی کے لیے سجاوٹ کے سامان اور بچوں کے ملبوسات کی فروخت بھی عین عروج پر ہے۔ اس لیے ایک روز بازار کی بندش سے تاجر برادری کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے۔ صوبائی حکومت اور ایڈمنسٹریٹرکے ایم ایم سی نے بازاروں سے گندے پانی کی نکاسی اور جراثیم کش اسپرے کا بندوبست نہ کیا تو کراچی سمیت ملک کی معیشت کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment