پیر, 06 مئی 2024


پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے اور حکومت

ایمزٹی وی(بزنس)حکومت نے ایران کی طرف سے ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے ایران سے گیس کی پرائس پر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے۔ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے حکام کے مطابق ایران ترکی کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں چلا گیا ہے اور اس وقت اس کے ترکی کے خلاف تین کیسز چل رہے ہیں۔ پاکستان نے موجودہ حالات کے پیش نظر پاک ایران گیس پائپ لائن پر عملدرآمد نہ کرنے پر ایران کی طرف سے پاکستان کے خلاف ممکنہ عدالتی کارروائی سے بچنے کے لیے گیس کی قیمت پر دوبارہ مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ایران کے حکام سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔ عید کے بعد دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا امکان ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کا سنگ بنیاد 2013 میں رکھا گیا تھا، معاہدہ کے تحت دسمبر 2014 تک اس منصوبے کی تکمیل کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی۔ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے پر پاکستان کو روزانہ 30 کروڑ روپے جرمانہ عائد ہو سکتا ہے کیونکہ ایران نے اپنی حدود میں 900کلو میٹر پائپ لائن بچھا دی ہے جبکہ پاکستان نے اپنی حدود میں 785 کلو میٹر طویل پائپ لائن نہیں بچھائی ہے۔ حکام کے مطابق پاک ایران پائپ لائن کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ امریکی پابندیاں، بلوچستان میں سیکیورٹی کے حالات اور پاکستان کے عرب ممالک سے قریبی تعلقات ہیں۔ اس حوالے سے رابطہ کرنے پر وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے ایکسپریس کو بتایا کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاک ایران گیس پائپ لائن پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اگر ایران پر پابندیوں کا خاتمہ ہوتا ہے تو ایران پاکستان کے خلاف عالمی ثالثی عدالت میں جا سکتا ہے، اس لیے گیس کی قیمت پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں گے۔ ایران پہلے ہی ترکی کے خلاف عالمی عدالت میں جا چکا ہے۔ پاکستان اس منصوبے پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment