اتوار, 28 اپریل 2024


مریضوں کی کثیر تعداد علاج سے محروم رہتی ہے، ڈاکٹرفوزیہ صدیقی کا جامعہ کراچی میں خطاب

ایمز ٹی وی(کراچی) پاکستان میں 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں، مرگی قابلِ علاج ہے، مریضوں کی کثیر تعداد علاج سے محروم رہتی ہے، پاکستان میں15200 مرگی کے مریضوں کے لئے صرف ایک نیرولوجسٹ ہے جبکہ زیادہ تراس مرض کے علاج میں مہارت نہیں رکھتے۔

یہ بات آغا خان یونیورسٹی ہسپتال اور جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کی معروف ماہرِ اعصابی امراض ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے ڈاکٹر پنجوانی سےنٹر برائے مالےکےو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی)، بےن الاقوامی مرکز برائے کےمےائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی اےس)، جامعہ کراچی میں عوامی آگاہی پروگرام کے تحت ”مرگی“ کے موضوع پراپنے خطاب کے دوران کہی۔ لیکچر کا انعقادڈاکٹر پنجوانی سےنٹر برائے مالےکےو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ اور ورچو¿ل ایجوکیشنل پروگرام برائے پاکستان کے باہمی تعاون سے ہوا۔

 

ڈاکٹرفوزیہ صدیقی نے کہا عالمی ادارہ¿ صحت کے مطابق مرگی ایک سنجیدہ دماغی مسئلہ ہے جو نہ صرف ایک فرد بلکہ اس کے خاندان اور پورے سماج پر برے اثرات مرتب کرتا ہے، اس مرض کو پاکستان سمیت امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی معاشرتی رسوائی کا سبب سمجھا جاتا ہے جو علم کی کمی اور مسئلے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے، انھوں نے کہا پاکستان میں اس مرض سے متاثرہ افرادکے اعدادوشمار جمع کرنے کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں ہے لیکن ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی ایک فیصد آبادی اس مرض میں مبتلا ہے جو دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، انھوں نے کہا افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں 18کروڑ عوام کے لئے صرف 135 نیرولوجسٹ موجود ہیں، مرگی کی درجنوں اقسام ہیں جن میں اکثر قابلِ علاج ہیں مگر عوام حقائق سے نابلد ہیں، معاشرے کے ناخواندہ اور جاہل افراد اس مرض کو سماجی ذلت سمجھ کرپوشیدہ رکھتے ہیں یا پھراسکے علاج کے لئے پیروں اور فقیروں کے پاس جاتے ہیں جو خلافِ عقل ہے ،

ایک تحقیق کے مطابق شہری علاقوں میں27.5 فیصد اور دیہی علاقوں میں صرف دو فیصد لوگ مرگی کا علاج کرواتے ہیں، ترقی پذیر ممالک میں 80 فیصد مرگی میں مبتلا لوگ بغیر کسی علاج کے زندگی بسر کرتے ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment