Friday, 20 September 2024


بھارت میں کم سن بچیوں پر ظلم

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) بھارتی خواتین کی نصف آبادی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہے۔اقوام متحدہ کے فنڈز برائے آبادی کےجاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس بات کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کم عمری کی جتنی بھی شادیاں ہوتی ہیں ان میں سے ایک تہائی شادیاں بھارت میں ہوتی ہیں۔

قانونی اعتبار سے بھارت میں شادی کے لئےخواتین کی کم از کم عمر 18 اور مردوں کی کم ازم 21 سال ہونا ضروری ہے جبکہ چھوٹی عمر کی شادی قابل سزا جرم ہے۔ خلاف ورزی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ یا2 سال کی قید بھی ہوسکتی ہےجبکہ بعض صورتوں میں دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔

بچوں کے حقوق کی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق راجستھان میں تینتالیس فیصدکم سن دلہنیں اور سولہ فیصد کم سن دولہاموجود ہیں جبکہ اتر پردیش میں ہر سال اکیس فی صد اور ہریانہ میں بیس فیصد کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں۔

رپورٹس میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ خواتین کی قانوناًطے شدہ عمر سےتین گنا کم عمر میں بھی شادی کردی جاتی ہے ۔

کچی عمروں میں بچیوں کی شادیوں سےصحت کے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں جن میں حمل کے دوران ماں اور بچے کی جان کو خطرہ اور ایچ آئی وی سمیت دوسری مہلک بیماریوں کی جنسی طور پرمنتقلی کے خطرات شامل ہیں۔

یہی نہیں بلکہ رخصتی کے بعدا ن بچیوں کو گھریلو تشدد ،جنسی استحصال اورمعاشرے میں تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے تجزیئے سےیہ ہولناک انکشاف بھی ہوتا ہے کہ شمالی بھارت میں تقریباپینتیس لاکھ لڑکیوں اور دس لاکھ لڑکوں کی شادی کم عمری میں ہوئی۔یعنی یہ تعداد پورے ملک کی اوسط سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

Share this article

Leave a comment