Saturday, 21 September 2024


عمران خان حقیقی معنوں میں تنہائی کا شکار دکھائی دیتےہیں


ایمزٹی وی(لاہور) وزیر اعظم نوازشریف کے بارے میں سیاسی حلقوں میں اگر یہ تاثر عام ہے کہ وہ خوش قسمت انسان ہیں تو یہ ایسا کوئی غلط بھی نہیں ہے۔ ان کی سیاسی زندگی میں کتنے ہی بحران آئے لیکن وہ ان سب سے کسی بڑے نقصان یا بڑی آزمائش کے بغیر نکل آئے۔ جب بھی ان کی حکومت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ان کے اقتدار کا سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے کوئی نہ کوئی ’’غیبی‘‘ مدد آ پہنچتی ہے جس سے نہ صر ف ان کا اقتدار محفوظ رہتا ہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوجاتا ہے۔
2014ء کے دھرنے کے دوران ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب ان کی حکومت مکمل طورپر مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ پارلیمنٹ ہاوس اور وزیر اعظم ہاوس مظاہرین کے حصار میں تھے اور حکومتی رِٹ کہی دکھائی نہ دیتی تھی۔ حکومتی کارپردازان حتیٰ کہ وزیر اعظم کے اپنے قریبی حلقے، وزراء اور مشیران کرام تک کونوں کھدروں میں جا چھپے تھے عین اس ’’عالمِ نزع‘‘ میں قدر ت نے پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور ان کے دیگر یمین ویسار کے ذریعے انہیں بیساکھیاں مہیا کردیں او ر اس طرح وہ اس حملے سے صاف بچ نکلے۔
چند ماہ قبل پاناما لیکس کا غلغلہ بلند ہوا اور اس کی زد میں دوسرے لوگوں کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف بھی آگئے کہ ان لیکس کے مطابق وزیر اعظم نے منی لانڈری کی اورغیرقانونی ذرائع سے حاصل کردہ دولت سے انگلینڈ میں بیش قیمت فلیٹس خریدے جن کا ان کے قانونی اثاثوں میں ذکر تک نہیں تھا۔ ان انکشافات کے سامنے آنے پر حزب ِمخالف کی طرف سے ایک طوفان برپا کردیاگیا۔
حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں اگرچہ پیپلزپارٹی بھی تھی لیکن اس کے خلاف اصل آواز تحریک انصاف ہی نے بلند کی کہ جس پر تاحال کرپشن کا کوئی الزام ریکارڈ میں موجود نہیں۔ اس کے ساتھ ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک، چوہدری برادران کی پاکستان مسلم لیگ ( ق ) کے علاوہ شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیں۔ پیپلزپارٹی کے سینٹر اعتزاز احسن نے تحریک انصاف کے رہنماوں شاہ محمود قریشی اور دیگر کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاجی بازار گرم رکھا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کرپشن فری پاکستان مہم چلائے ہوئے تھی۔ اس نے بھی اپنے طور پر حکومت کی کرپشن کے خلاف تحریک میں حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ عوامی تحریک نے تو اس سلسلے میں باقاعدہ آل پارٹیز کانفرنس بھی بلا لی جس میں پیپلزپارٹی سمیت حکومت مخالف کم وبیش تمام جماعتوں نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کے ذریعے حکومت کے خلاف ایک متحدہ اپوزیشن سامنے آئی اور حکومتی کرپشن کے خلاف ایک توانا آواز ابھری۔ لیکن ذاتی مفادات کے اسیر ان جماعتوں کے قائدین کی خود غرضانہ سوچ اور اخلاص سے عاری فیصلوں نے متحدہ اپوزیشن کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دی۔ یہ بھی ایک طرح سے نواز شریف کی خوش قسمتی ہی کی دلیل تھی کہ جس متحد ہ اپوزیشن سے انہیں خطرہ لاحق ہو سکتاتھا وہ تشکیل ہی نہ پاسکی۔
حالانکہ کرپشن کا ایشو ایسا ہے کہ جس پر پوری قوم یکسو اور متفق ہے۔کوئی سیاسی جماعت یا سیاستدان کرپشن کی مخالفت کی جرات نہیں کرسکتا لیکن دلوں کا کھوٹ اس مہم کو کامیابی سے ہمکنارکرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی دوران بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی دہشت گردی اور ظلم و تشد دسے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستانی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔
اڑی کا ڈرامہ رچایا اور اس کی آڑ میں پاکستان پر دہشت گردی کاالزام لگا کر دنیا کی نظروں میں ہمیں بدنام کرنے کی کوششیں شروع کردیں اور پاک بھارت جنگ کا ہوا کھڑا کردیا گیا چنانچہ اسے بھی نوازشریف کی خوش بختی پر محمول کیا گیا ۔کہ اس صورت حال نے ملکی سیاست کی جہت کو قدرے بدل کررکھ دیا اور تمام سیاسی حلقوں میں بھارت کے مقابلے میں یک جا ہونے کا تاثر دینے کی سوچ غالب آگئی۔ اس پر اگرچہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف نے ’’بھارت کے خلا ف ہم سب ایک ہیں ‘‘ کا بھرپور نعرہ بلند کیا لیکن اس صورت حال کے باوجود حکومت مخالف تحریک کا زور کم نہ ہوا۔
بلاشبہ یہ عمران خان ہی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے’’تمام تر نامساعد حالات‘‘ میں بھی اپنے موقف میں لچک پیدا نہ کی اور کرپشن مخالف مہم جاری رکھی۔ انہوں نے رائے ونڈ میں نوازشریف کے محلات کے قریب اڈہ پلاٹ پر جلسے کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کر کے اپنے جوش وجذبات کا بھرپور اظہار کیا۔ اس جلسہ میں عمران خان نے آئندہ جلسہ نہ کرنے اور اسلام آباد کو بند کرنے کا دھماکہ خیز اعلان بھی کردیا جس نے ملکی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔
بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف بھرپور میڈیا اور سفارتی مہم چلانے پر حزب اختلاف کی تجویز پر وزیر اعظم نوازشریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر لیا جس میں شیخ رشید کو مدعو ہی نہیں کیا گیا جب کہ عمران خان نے یہ کہہ کرشرکت نہیں کی کہ موجودہ وزیر اعظم کرپشن کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں ناکامی کے بعد اخلاقی طورپر اس منصب کے اہل نہیں رہے اس لیے ان کی میزبانی میں وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کیونکر کرسکتے ہیں۔ بہرحال اس مشترکہ اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے بھارت کو متحد ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔
اس دوران دو واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے کہ جن کے ہماری سیاسی زندگی پر بہر حال اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک پیپلزپارٹی اور نوازلیگ میں لفظی لڑائی اور الزام تراشی جس نے ماحول کر خاصا مکدر بنادیا دوسرا واقعہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں جھڑپ کا ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان تو لڑائی شائد دیرپا ثابت نہ ہو (کہ یہ دونوں کے مفاد میں نہیں ہے) البتہ تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی میں فاصلہ مزید بڑھ سکتاہے۔
عمران خان نے آصف علی زرداری کو کرپشن کا بادشاہ کہا اور پیپلزپارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ مائنس ون فارمولے پر عمل کرتے ہوئے کرپشن کے خلا ف یک سو ہوجائے جس پر انہیں شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا اور اس بنا پر پاناما کے حوالے سے حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف مہم میں دونوں جماعتوں میں دوری پیدا ہوگئی ہے۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ آج عمران خان، آصف علی زرداری اور نوازشریف پراسی طرح الزام تراشی کر رہے ہیں جس طرح نوے کے عشرے میں میاں نوازشریف بے نظیر بھٹو کے خلاف نعرہ زن ہو ا کرتے تھے۔ سو یہ بھی نوازشریف کی خوش قسمتی ہی تصور کی جاسکتی ہے کہ وہ توانائیاں جو ان جماعتوں نے مسلم لیگ ن کے خلاف صرف کرنا تھیں اب وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں گی ۔
بہر حال اس وقت قومی سیاست میں کرپشن کے ایشو پر عمران خان حقیقی معنوں میں تنہائی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں ڈاکٹر طاہرالقادری، شجاعت حسین اور سراج الحق کی طرف سے اس ایشو پر وہ سپورٹ مہیا نہیں کی جارہی جو ان جماعتوں کا بھی ’’ اصولی موقف ‘‘ ہے۔ لے دے کر صرف ایک شیخ رشید ہی وہ سیاستدان ہیں جو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں او ر ان کے مشیرِِ خاصٓ کا درجہ رکھتے ہیں۔ سو ان حالات میں عمران خان نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا جو اعلان کررکھا ہے اس نے خود سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی عجیب قسم کے مخمصے سے دوچار کردیا ہے۔
مسلم لیگ کی اب یہی کوشش ہوگی کہ عمران خان اور شیخ رشید کے علاوہ کوئی تیسری جماعت ان کے ساتھ کھڑی دکھائی نہ دے جبکہ عمران خان کی کوشش یہ ہوگی کہ کرپشن کے ناسور کے خلاف آواز بلندکرنے والی تمام سیاسی جماعتیں، سیاسی قوتیں اور سیاسی حلقے ان کاساتھ دیں۔ وہ اب ’’ناو آر نیور‘‘ کی منزل پر ہیں اور موجودہ حکومت کے خلاف اس قدر طاقت کے ساتھ دباو ڈالنا چاہتے ہیں کہ حکومت پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ محرم الحرام کے بعد حکومت عمران خان کا رستہ روکنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیارکرتی ہے؟

Share this article

Leave a comment