ایمزٹی وی(اسپورٹس)پاکستان کرکٹ بورڈ پی ایس ایل کا فائنل 5مارچ کو قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کرانے کیلیے بھرپور تیاریاں کررہا تھا، فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن نے سیکیورٹی ماہرین کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے غیر ملکی کرکٹرز کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا تو پی سی بی نے جواب میں سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے اہم قدم اٹھانے کا ارادہ ترک نہیں کیا۔ ادھر کئی غیر ملکی کرکٹرز بین الاقوامی مصروفیات، این او سی نہ ملنے، انجریز اور نجی مسائل کی وجہ سے دوسرا ایڈیشن شروع ہونے سے قبل ہی معذرت کرچکے تھے، چند ایک پورے ایونٹ کیلیے دستیاب نہیں تھے، اسکواڈز مکمل کرنے کیلیے فرنچائززکو دوسرے ڈرافٹ کا سہارا لینا پڑا، ابھی یہ غورو فکر جاری تھا کہ فائنل میں پہنچنے والی ٹیموں میں کون سے غیرملکی کرکٹرز شامل اور کتنے پاکستان آنے کیلیے تیار ہوں گے کہ لاہور میں چیئرنگ کراس پر خودکش حملہ ہوگیا۔ پہلے ہی شکوک کا شکار فائنل کی امیدوں پر کاری ضرب کے زخم ابھی تازہ تھے کہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر دھماکے تک دہشت گردی کے مسلسل واقعات نے تشویش میں اضافہ کردیا، اگرچہ پی ایس ایل کی گورننگ کونسل کے سربراہ نجم سیٹھی پہلے ہی ذہن بناچکے تھے کہ ٹاپ غیرملکی کھلاڑیوں کے انکار کی صورت میں ”بی“ کیٹیگری کے پلیئرز کو موقع دیا جائے گا، خلا پر کرنے کیلیے تیسرا ڈرافٹ کرنے کا پلان بھی تھا تاہم صورتحال تیزی سے تبدیل ہونے پر ان کی مہم مزید مشکل ہوتی گئی۔ نجم سیٹھی نے ابھی تک غیر ملکی کرکٹرز اور آفیشلز کو اعتماد میں لینے کی کوشش بھی کی ہے، تاہم کوئی بڑی مثبت خبر نظر نہیں آئی۔ حامی بھرنے والوں میں مکی آرتھر قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ ہیں، ڈین جونز اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ اور ویوین رچرڈز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مینٹور اور پاکستان آتے جاتے رہے ہیں، کسی کرکٹر کی جانب سے واضح بیان سامنے نہیں آیا تاہم پی ایس ایل منیجمنٹ پیر کو فائنل لاہور میں کرانے کیلیے اہم پیش رفت کرنے کی کوشش کریگی، اس حوالے سے ہونے والے اہم اجلاس میں نجم سیٹھی فرنچائز مالکان کو بریفنگ دیں گے۔ پی ایس ایل کے برانڈ ایمبیسیڈر وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ اجلاس میں فائنل لاہور میں کروانے کی کوشش ضرور کی جائے گی لیکن اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، میرے خیال میں کامیابی تو تب ہوگی کہ غیرملکی کرکٹرز بھی شرکت کیلیے آئیں۔رمیز راجہ نے کہا کہ ابھی انتظارکررہے ہیں، پاکستانی تو آہی جائیں گے، غیر ملکی کرکٹرز اپنے سیکیورٹی مشیروں پرانحصار کرتے ہیں ان کو قائل کرنا آسان نہیں ہوتا،شکوک کو ختم کرتے ہوئے اعتماد بحال کرنا ہوگا کہ ہم حفاظتی انتظامات کرسکتے ہیں۔