Sunday, 17 November 2024

ایک سبق آموز درس

کسی ملک میں ایک قانون تھا کہ وہ ایک سال بعد اپنا بادشاہ بدل لیتے۔ اس دن جو بھی سب سے پہلے شہر میں داخل ہوتا تو اسے بادشاہ منتخب کر لیتے اور اس سے پہلے والے بادشاہ کو ایک بہت ہی خطرناک اور میلوں پھیلے جنگل کے بیچوں بیج چھوڑ آتے جہاں بے چارہ اگر درندوں سے کسی طرح اپنے آپ کو بچا لیتا تو بھوک پیاس سے مر جاتا نہ جانے کتنے ہی بادشاہ ایسے ہی سال کی بادشاہی کے بعد جنگل میں جا کر مر کھپ گئے اس دفعہ شہر میں داخل ہونے والا نوجوان کسی دور دراز کے علاقے کا لگ رہا تھا سب لوگوں نے آگے بڑھ کر اسے مبارک دی اور اسے بتایا کہ آپ کو اس ملک کا بادشاہ چن لیا گیا ہے اور اسے بڑے اعزاز کے ساتھ محل میں لے گئے ، وہ حیران بھی ہوا اور بہت خوش بھی تخت پر بیٹھتے ہیں اس نے پوچھا کہ مجھ سے پہلا بادشاہ کہاں گیا تو درباریوں نے اسے اس ملک کا قانون بتایا کہ ہر بادشاہ کو سال بعد جنگل میں چھوڑ دیاجاتا ہے اور نیا بادشاہ چن لیا جاتا ہے یہ سنتے ہیں وہ ایک دفعہ تو پریشان ہوا لیکن پھر اس نے اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس جگہ لے کر جاؤ جہاں تم بادشاہ کو چھوڑ کر آتے ہو۔ درباریوں نے سپاہیوں کو ساتھ لیا اور بادشاہ سلامت کو وہ جگہ دکھانے جنگل میں لے گئے ، بادشاہ نے اچھی طرح اس جگہ کا جائزہ لیا اور واپس آگیا اگلے دن اس نے سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ میرے محل سے جنگل تک ایک سڑک تعمیر کی جائے اور جنگل کے بیچوں بیج ایک خوبصورت محل تعمیر کیا جائے جہاں پر ہر قسم کی سہولت موجود ہو اور محل کے اردگر خوبصورت باغ لگائے جائیں بادشاہ کے حکم پر عمل ہوا اور تعمیر شروع ہوگئی ، کچھ ہی عرصہ میں سڑک اور محل بن کر تیار ہوگئے ایک سال کے پورے ہوتے ہی بادشاہ نے درباریوں سے کہا کہ اپنی رسم پوری کرو اور مجھے وہاں چھوڑ آؤ جہاں مجھ سے پہلے بادشاہوں کو چھوڑ کے آتے تھے درباریوں نے کہا کہ بادشاہ سلامت آج سے یہ رسم ختم ہوگئی کیونکہ ہمیں ایک عقل مند بادشاہ مل گیا ہے ، وہاں تو ہم ان بےوقوف بادشاہوں کو چھوڑ کر آتے تھے جو ایک سال کی بادشاہی کے مزے میں باقی کی زندگی کا بھول جاتے اور اپنے لیے کوئی انتظام نہ کرتے ، لیکن آپ نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا کہ آگے کا خوب بندوبست فرمالیا۔ ہمیں ایسے ہی عقل مند بادشاہ کی ضرورت تھی اب آپ آرام سے ساری زندگی ہم پر حکومت کریں اب آپ لوگ سوچیں کہ کچھ دن بعد ہمیں بھی یہ دنیا والے ایک ایسی جگہ چھوڑ آئیں گے تو کیا ہم نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں اپنا محل اور باغات تیار کرلیے ہیں یا بے وقوف بن کر اسی چند روزہ زندگی کی مزوں میں لگے ہوئے ہیں اور ایک بہت لمبی زندگی برباد کر رہے ہیں ذرا سوچیئے کہ پھر پچھتانے کی مہلت نہیں ملے گی۔

ایمز ٹی وی(لاہور) تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اہلیہ ریحام خان کی ڈگری کے حوالے سے برطانوی اخبار نے دعوی کیا ہے کہ ریحام خان نے جس کالج سے براڈ کاسٹر جرنلزم کی ڈگری حاصل کی وہ کالج یہ کورس ہی نہیں کرواتا۔ ریحام خان نے اپنی ڈگری سے متعلق غلط بیانی سے کام لیا۔ اخبار کے مطابق لنڈسے کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان کے ریکارڈ میں ریحام خان کے نام سے کوئی اسٹوڈنٹ نہیں اور نہ ہی ہم براڈ کاسٹر جرنلزم کی کوئی ڈگری جاری کرتے ہیں۔ اخبار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریحام خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ ڈیلی میل نے لکھا کہ اس سے پہلے بھی ریحام خان نے اپنے سابق شوہر پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انہیں گھریلو تشدد کا نشانہ بناتے رہے تاہم ڈاکٹر اعجاز احمد نے اسکی سختی سے تردید کی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔واضح رہے اسی اخبار نے ہی ریحام خان کی عمران خان سے خفیہ شادی کی خبر بریک کی تھی۔

ایمز ٹی وی (فیصل آباد) تحصیل جڑانوالہ کے نواحی قصبے روڈالا کے مین بازار میں سڑک کنارے بیٹھا منور شکیل پچھلی 3 دہائیوں سے دیہاتیوں کے پھٹے پرانے جوتے مرمت کرنے میں مصروف ہے۔ 1969ء میں پیدا ہونے والے منور شکیل نے ہوش سے پہلے ہی اپنے باپ کو کھو دینے اور رسمی تعلیم سے یکسر محروم رہنے کے باوجود 13 سال کی کم عمری میں شاعری کا آغاز کیا اور ان کی پہلی کتاب 'سوچ سمندر' 2004ء میں منظرِ عام پر آئی۔ منور پنجابی شاعری کی 5 کتابوں کے مصنف ہیں اور اپنی شاعری کی وجہ سے شہر کے مضافاتی علاقوں کی رہتل اور لوگوں کی زندگیوں کی حقیقتوں کا ترجمان مانے جاتے ہیں۔ ان کی اب تک شائع ہونے والی تمام کتابیں ایوارڈ یافتہ ہیں۔اپنی شاعری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مختلف طبقات میں تقسیم ہمارے معاشرے میں نچلے طبقے کے لوگوں کو درمیانے اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرف سے روز مرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کمزور لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے اس سلوک کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ مضافات میں رہنے والے لوگوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی لیکن مالی وسائل کی کمی کے باعث وہ دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں