منگل, 30 اپریل 2024


ملیریا انسانی تاریخ کی بدترین بیماری قرار

ایمزٹی وی(صحت)اگر آپ ایبولا، زیکا، برڈ فلو یا ایڈز کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری سمجھتے ہیں تو اپنی غلط فہمی دور کرلیں کیونکہ آسٹریلوی سائنسدانوں نے ’’ملیریا‘‘ کو انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری قرار دیا ہے۔ آسٹریلوی جریدے ’’بزنس انسائیڈر‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ’’ملیریا‘‘ انسانی تاریخ کی سب سے ہلاکت خیز بیماری ہے جو عام لوگوں کے علاوہ کئی مشہور ہستیوں تک کو ہلاک کرچکی ہے۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہےکہ اس کرہ ارض پر اب تک جتنے انسان بھی پیدا ہوئے ہیں ان میں سے کم و بیش 50 فیصد ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق انسان اور ملیریا طفیلیے ’’پلازموڈیم‘‘ میں مڈبھیڑ کی تاریخ کم و بیش 2 کروڑ سال پرانی ہے جس کے دوران یہ مرض متعدد بار وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ علاوہ ازیں معمول کے حالات میں بھی ملیریا کی تباہ کاریاں کچھ نہیں رہیں۔ مثلاً 1900 سے 1950 کے دوران صرف ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 10 کروڑ رہی، جو ’’اسپینش فلو‘‘ کی عالمی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی دُگنی ہے۔

انسانی تاریخ کے دوران ملیریا نے بڑے بڑوں تک کو نہیں بخشا۔ مثلاً چنگیز خان اور اٹیلا ہُن کے لشکروں میں ملیریا کی وبا نے بھیانک تباہی مچائی اور انہیں عرصے تک پیش قدمی سے روکے رکھا۔ جارج واشنگٹن، تھیوڈور روزویلٹ، ابراہام لنکن اور جان ایف کینیڈی جیسے مشہور امریکی صدور بھی ملیریا کے باعث بیمار پڑے۔ ملیریا کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی مشہور تاریخی شخصیات میں 6 عدد پوپ، سکندرِ اعظم اور فرعون توتنخ آمون تک کے نام شامل ہیں۔

1946 میں امریکی ادارے ’’سینٹر فار ڈزیز کنٹرول‘‘ (سی ڈی سی) کا قیام ہی ملیریا پر قابو پانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ تب سے آج تک نت نئی کیڑے مار دواؤں اور ملیریا کی دواؤں کی بدولت اس بیماری پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن آج بھی بیشتر غریب اور پسماندہ ممالک میں اس کی شدت برقرار ہے اور یہ ہر سال 5 لاکھ سے زائد افراد کی جان لے لیتی ہے۔

واضح رہے کہ انوفلیز مچھر کی مادّہ میں ملیریا کا طفیلیہ ’’پلازموڈیم‘‘ پروان چڑھتا ہے اور اسی مادہ مچھر کے کاٹنے سے ملیریا ہوتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ افراد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً 2700 لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment