ھفتہ, 18 مئی 2024


خطہ عرب میں 20 ہزارسال پہلے بھی انسانی آبادی موجود تھی

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)ماہرین نے یہ نتیجہ مائٹوکونڈریا میں پائے جانے والے ڈی این اے کی ایک خاص قسم R0a کا محتاط تجزیہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے۔ ڈی این اے کی یہ قسم انسانی ارتقاء کو سمجھنے سے لے کر کسی علاقے میں انسانی آبادیوں کی درست قدامت تک کے تعین میں بہت مددگارثابت ہورہی ہے۔ نیچر ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ میں شائع شدہ، اس تحقیقی مقالے کی مرکزی مصنفہ کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطی کے لوگوں میں مذکورہ مائٹوکونڈریائی ڈی این اے کی بڑی تعداد موجود ہے؛ جس میں تغیرات (mutations) کے تفصیلی اور محتاط مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ 20 ہزار سال قدیم ہے۔ آج سے 20 ہزار سال پہلے کے زمانے میں، جسے ’’گزشتہ برفانی عہد‘‘ (Last Glaciation) کا عروج بھی قرار دیا جاتا ہے، زمین کے بیشتر علاقوں پر برف کا راج تھا۔ البتہ اتنے شدید سرد حالات میں بھی کچھ علاقے ایسے ضرور تھے جہاں کا ماحول نسبتاً گرم تھا اور جو انسانی آبادیوں کے لیے مناسب تھے: یہ برفانی عہد میں انسانی ’’پناہ گاہیں‘‘ (refugia) تھیں۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ بحیرہ روم کی ساحلی پٹی سمیت، سرزمینِ عرب کے جنوبی علاقوں میں انسانی آبادی موجود تھی۔ قبل ازیں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سرزمینِ عرب پر اوّلین انسانی بستی، برفانی عہد ختم ہونے اور زراعت ایجاد ہوجانے کے بعد وجود میں آئی؛ جو آج سے تقریباّ 10 ہزار سے 11 ہزار سال پہلے کا زمانہ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ عرب میں انسان کی آمد، افریقا کے بالائی علاقوں (قرنِ افریقہ) کے راستے ہوئی تھی۔ نئی تحقیق ان خیالات کے بھی بالکل خلاف جارہی ہے۔ اس کے مطابق، آج سے 15 ہزار سال پہلے جب گزشتہ برفانی عہد کی شدت کچھ کم ہوئی تو سرزمینِ عرب پر بسنے والے انسانوں نے قرنِ افریقہ کا رُخ کیا؛ اور بعد ازاں مشرقِ وسطی کے دوسرے علاقوں میں پھیل گئے۔ اسی کے ساتھ ماہرین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ شاید ان ہی ’’قدیم ترین عربوں‘‘ کی آئندہ نسلیں اُن علاقوں میں جاکر آباد ہوگئی ہوں جو موجودہ ایران، پاکستان اور ہندوستان میں شامل ہیں۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment