منگل, 07 مئی 2024


یو اے ایس ایجنسی کی طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود میں 24 ہزار فٹ کی بلندی سے اوپر اڑنے کی ہدایت

ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) یورپی یونین میں پروازوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے ممکنہ شدت پسند حملوں کے خدشے کی وجہ سے طیاروں کو پاکستانی فضائی حدود میں 24 ہزار فٹ سے کم بلندی پر نہ اڑنے کے لیے کہا ہے۔تاہم پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے ایوی ایشن شجاعت عظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس سلسلے میں آگاہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی وجہ بتائی گئی ہے۔یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی یعنی ایسا نے اعلان کیا ہے کہ فرانسیسی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنی ائر لائنز کو پاکستان میں خصوصاً لاہور اور کراچی کی فضائی حدود میں 24 ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے اڑنے سے منع کیا ہے۔’ایسا‘ نے یہ تنبیہ 22 جنوری کو ایک اطلاع نامے کے ذریعے جاری کی ہے۔یورپی ادارے کا مزید کہنا ہے کہ تمام بین الاقوامی پروازوں کو اس بارے میں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ پاکستان سے اور اس کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کو ممکنہ شدت پسند حملوں کے باعث انتہائی احتیاط کرنی چاہیے۔تاہم وزیرِ اعظم کے مشیر برائے ایوی ایشن شجاعت عظیم نے بی بی سی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نہ فرانس اور نہ ہی ایسا نے سکیورٹی کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم کی ہے۔’پاکستان میں تمام قومی اور بین الاقوامی پروازیں معمول کے مطابق چل رہی ہیں اور کسی قسم کے شدت پسند حملے کی تازہ اطلاع نہیں ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ہوائی جہازوں کا تحفظ اہمیت کا حامل ہے اور اگر کوئی ایسی بات ہوتی، تو میڈیا کوضرور بتائی جاتی۔’ایسا ہو سکتا ہے کہ فرانس یا یورپی ایجنسی کو کسی ڈرون طیارے کی پرواز کے بارے میں اطلاع ہو، کیونکہ چوبیس ہزار فٹ سے نیچے وہی اڑتے ہیں۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ گذشتہ برس کراچی کے ہوائی اڈے پر ہونے والے حملے کے بعد بین الاقوامی ہوائی کمپنیوں نے کچھ گھنٹوں کے لیے پروازیں روکی ضرور تھیں تھیں ’تاہم امارات ایئرلائن نے اگلے روز ہی پروازیں بحال کر دی تھیں۔‘شجاعت عظیم کو یقین ہے کہ یورپی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے تنبیہ نہیں کی بلکہ بین الاقوامی پروازوں کو محض محتاط رہنے کو کہا ہے۔

سول ایوی ایشن کے معاملات کے ماہر جواد نظیر کا کہنا ہے کہ ایسی تنبیہ دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کو متاثر کر سکتی ہے۔’ایوی ایشن کے جتنے بھی بین الاقوامی ادارے ہیں وہ سب ہی بہت با اثر ہیں کیونکہ ان کی تعداد کم ہے اور ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ اور اس سے پاکستانی ایوی ایشن کو نقصان ضرور ہو سکتا ہے، فائدہ نہیں۔‘

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment