ایمز ٹی وی(واشنگٹن) براعظم ایشیاءاور بحرالکاہل کے نقطہ اتصال پر چار طاقتیں پہلے ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھیں اور اب ایک پانچویں طاقت کے بھی اس خطے میں کودنے کی تیاری کر رہی ہے، جس کے بعد یہ خدشات زور پکڑ گئے ہیں کہ یہ خطہ اگلی عالمی جنگ کا میدان بننے والا ہے، جسے جنگ عظیم سوئم اور عالمی ایٹمی جنگ کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ امریکی پیسفک کمانڈ کے سربراہ ایڈمرل ہیری ہیرس نے خبردار کیا ہے کہ اب داعش کا خطرہ بھی ایشیاءپیسفک کے خطے کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات افسوسناک ہے مگر انہیں یقین ہے کہ داعش انڈوایشیاءپیسفک کی طرف منتقل ہونے کی کوشش کررہی ہے ۔ اس خطے میں داعش کی موجودگی کے آثار پہلے ہی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بنگلہ دیش میں دہشت گردی کے حملوں، انڈونیشیاءمیں گرجا گھروں پر ہونے والے حملے اور فلپائن کے بازاروں میں پھٹنے والے بم اس خطرے کی گھنٹی بجارہے ہیں۔ داعش کی جانب سے بھی حالیہ بیانات میں کہا گیا ہے کہ آسٹریلیا اس کا اگلا ہدف ہے، جبکہ آسٹریلوی وزیراعظم میلکم ٹرن بال بھی اس خطرے کی تصدیق کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ داعش جنوب مشرقی ایشیا میں قدم جمانا چاہتی ہے جو کہ صرف آسٹریلیا نہیں بلکہ پورے خطے کے لئے بڑا خطرہ ہوگا۔ بحیرہ جنوبی چین کے تنازعے میں امریکہ اور چین پہلے ہی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ شمالی کوریا آئے روز امریکہ اور جنوبی کوریا کو ایٹمی حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے جبکہ روس بھی اس خطے میں پوری طرح سرگرم ہے۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ روس اور چین کی بحری افواج بحیرہ جنوبی چین میں جنگی مشقیں کررہی ہے۔ امریکہ گوام کے جزیرے میں واقع اپنے فوجی اڈے پر ایٹمی حملے کی صلاحیت سے لیس بمبار طیارے روانہ کرچکا ہے۔ شمالی کوریا ایک اور ایٹمی دھماکہ کرچکاہے۔ چین اور روس مل کر نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ روس اپنے ایٹمی میزائل ایک ایسی جگہ پر پہنچاچکا ہے جو امریکی سرحد سے محض 70کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے