ایمز ٹی وی(لاہور) قومی اسمبلی گزشتہ روز میدان جنگ بنی رہی ، حکومتی اور تحریک انصاف کے ارکان گتھم گھتا ہوگئے ، لاتوں اور گھونسوں کی بارش ہوگئی جبکہ دوسری طرف گزشتہ روز ہی ، پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلی کیخلاف ریفرنس رولنگ نہ دینے پر اپوزیشن نےہنگامہ آرائی کی جبکہ خیبرپی کے اسمبلی میں فنڈز کی غیر منصفانہ تقسیم پر حزب اختلاف سراپا احتجاج بن گئی۔
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کیخلاف جمع کرائے گئے ریفرنس کے معاملے پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی مخالفانہ نعرے بازی سے ایوان مچھلی منڈی بن گیا جبکہ اپوزیشن نے ایوان کی کارروائی سے واک آﺅٹ بھی کیا۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت دس بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 10منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر ایوان میں صرف 8 ممبران موجود تھے۔ قائد حزب اختلاف محمود الرشید نے نقطہ اعتراض پر سپیکر پنجاب اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آئین کے آرٹیکل 63 کے سب سیکشن 2کے تحت اپوزیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف ایک ہفتہ قبل آپ کے پاس ریفرنس دائر کیا جس میں ہائیکورٹ کی رولنگ کے مطابق ان کے خاندان کی شوگر ملوں کی منتقلی کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب صادق اور امین نہیں رہے، وہ نااہل ہوتے ہیں، آپ وزیراعلیٰ پنجاب کو اسمبلی میں بلائیں اور وہ اس کا جواب دیں جس پر سپیکر نے کہاکہ میرے پاس آپ کا ریفرنس آچکا ہے اور میں آپ کو کال کروں گا جس پر محمودالرشید نے کہا کہ سپیکر صاحب آپ پارٹی نہ بنیں جس پر سپیکر نے کہا کہ میں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کروں گا لیکن قائد حزب اختلاف اصرار کرتے رہے شہباز شریف اسمبلی میں آکر جواب دیں۔ اس دوران محمود الرشید اور دیگر اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کر سپیکر ڈائس کے قریب کھڑے ہو گئے اور گو نواز گو، ڈاکو ڈاکو، گلی گلی میں شور ہے نواز شریف چور ہے، گو شہباز گو کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جس کے جواب میں حکومتی ارکان اسمبلی بھی اپنے نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور رو عمران رو، گو عمران گو، گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو، چور چور، چور مچائے شور کے نعرے لگاتے رہے جس پر اپوزیشن نے دوبارہ نعرے لگائے مک گیا تیرا شو نواز گو نواز گو نواز جس پر حکومتی ارکان نے یہودیوں کا ایجنٹ کے نعرے لگائے۔
اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی مخالفانہ نعرے بازی سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ سپیکر بار بار ارکان کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے اسمبلی کی کارروائی بھی جاری رکھی۔ اسی دوران ایک حکومتی رکن نے تحریک التوائے کار جبکہ اپوزیشن رکن خدیجہ عمر نے توجہ دلاﺅ نوٹس پڑھا جس کا جواب وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے نعرے بازی کے دوران ہی دیا۔ نعرے بازی کے دوران ہی اپوزیشن رکن اسمبلی شعیب صدیقی نے کورم کی نشاندہی کی جس کے بعد اپوزیشن ارکان میاں محمود الرشید کی قیادت میں ایوان سے واک آﺅٹ کر گئے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے کورم کی نشاندہی کے بعد ایوان میں گنتی کرانے کا حکم دیا اورمقررہ تعداد موجود نہ ہونے پر سپیکر نے پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجانے کا حکم دیا جس کے بعد دوبارہ گنتی کرائی گئی تو حکومت نے کورم پورا کر دیا جس پر سپیکر نے اسمبلی کی کارروائی جاری رکھنے کا حکم دیا۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا بزنس ایڈوائزی کمیٹی کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف نے صحت پر دو دن بحث کا مطالبہ کیا تھا اور ان کے مطالبے پر ہی صحت پر بحث ہو رہی ہے لیکن انہوں نے اس اہم موضوع پر بحث کی بجائے کسی اور ایجنڈے پر کام کیا اور اب ایوان سے بھاگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ریفرنس کے حوالے سے صرف سپیکر پنجاب اسمبلی کے چیمبر میں بات ہو سکتی ہے۔ صحت کا معاملہ بہت اہم ہے لیکن اپوزیشن نے اس پر کوئی بات نہیں کی۔ اسی دوران اپوزیشن ارکان ایوان میں ڈاکو، ڈاکو کے نعرے بلند کرتے واپس آئے۔ رانا ثناءاللہ نے ان کے نعروں کے جواب میں کہا اپوزیشن کو پارلیمانی اقدار کا خیال نہیں، یہ انتہائی گھٹیا اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے، یہ عدالت پر دباﺅ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سپیکر نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ایوان میں اس مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی آپ میرے چیمبر میں آئیں لیکن اپوزیشن ارکان مسلسل سپیکر کو ریفرنس کے حوالے سے رولنگ دینے کا مطالبہ کرتے رہے۔ بعدازاں سپیکر نے صحت پر دوبارہ بحث کا آغاز کراتے ہوئے رکن اسمبلی رانا منور حسین کو بحث کرنے کی ہدایت کی۔
دوسری طرف خیبر پی کے اسمبلی میں ترقیاتی فنڈز کی غیرمنصفانہ تقسیم، اپوزیشن کو ترقیاتی کاموں میں نظرانداز کرنے اور سوالات کے جوابات نہ آنے پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایوان میں شدید ہنگامہ کیا اور دو مرتبہ ایوان سے واک آﺅٹ کردیا کورم کی نشاندہی پر ضلع دیر سے منتخب جماعت اسلامی کے محمد علی اور صاحبزادہ ثناءاللہ کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کو صلواتیں سنائیں، گالم گلوچ کا مظاہرہ ہوا، ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی کوشش کی لیکن دیگر ارکان نے بیچ بچاﺅکرایا۔ اجلاس کے دوران جب پیپلزپارٹی کے منتخب صاحبزادہ ثناءاللہ نے کورم کی نشاندہی کی تو ضلع دیر سے منتخب جماعت اسلامی کے محمد علی نے کہا ضلع دیر سے ایک اہم جرگہ آیاہوا ہے آپ کورم کی نشاندہی نہ کریں اس دوران دونوں ارکان کے مابین شدید تلخ کلامی ہوئی جس میں غیر پارلیمانی الفاظ کا آزادانہ استعمال ہوا۔ اجلاس کے آغاز پر سوالات کے جوابات نہ دینے پر اپوزیشن نے واک آﺅٹ کیا تاہم بعدازاں حکومتی ارکان کے منانے پر واپس آگئے۔ وقفہ سوالات کے بجائے نکتہ اعتراض پر بولتے ہوئے جے یوآئی کے محمود بیٹنی نے کہا سی اینڈ ڈبلیو نے ترقیاتی کاموں کیلئے تین ارب روپے جاری کئے ہیں لیکن تمام فنڈز صرف حکومتی ارکان میں تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ اپوزیشن کو ایک دھیلا بھی جاری نہیں کیا جا سکا بتایا جائے یہ کونسا انصاف ہے۔ پی پی کے محمد علی شاہ باچہ نے کہا محکموں کو اس بات کا پابند بنایا جائے وہ سوالات کا جواب دیں، سپیکر کی رولنگ کے باوجود ہمیں تمباکو سیس اور پن بجلی کی رائلٹی نہیں دی جارہی۔ اپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمن نے کہا خسارے کے بجٹ میں اب حکومت کے پاس دلائل نہیں گزشتہ سال موجودہ صوبائی حکومت نے خواب دیکھ کر بلین سونامی ٹری منصوبے کا آغاز کیا جس کے لئے دوسرے محکموں سے تین ارب روپے کاٹے گئے اس سال ایک مرتبہ پھر خواب دیکھنے کے بعد اشتہارات کیلئے دوسرے محکموں سے تین ارب روپے لئے گئے جن میں سے ایک ارب روپے جاری کئے جاسکے اور اشتہارات بھی ایسے لوگوں کے ذریعے تقسیم کئے گئے جو خود اشتہاری کمپنی کے مالکان تھے۔ شوکت یوسف زئی نے جواب دینے کی کوشش کی تاہم اے این پی کے سید جعفر شاہ نے کہاکہ شوکت یوسف زئی نہ تو وزیر ہیں نہ مشیر، وہ کس حیثیت سے جواب دے رہے ہیں ایوان اس دوران مچھلی منڈی میں تبدیل ہوگیا اور اپوزیشن نے ایوان سے واک آﺅٹ کر دیا۔ خیبر پی کے اسمبلی میں اپوزیشن نہیں بلکہ حکومتی خواتین ارکان نے ترقیاتی فنڈز نہ ملنے اور اہم اجلاسوں میں نہ بلانے اور منتخب ارکان و وزراءکی جانب سے بے عزت کرنے پر صوبائی اسمبلی سے بائیکاٹ کاسلسلہ جاری رکھا۔ صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کی گیارہ خواتین ارکان ہیں جن میں سے ایک ڈپٹی سپیکر مہرتاج روغانی ہیں ڈپٹی سپیکرکے علاوہ تحریک انصاف کی دس خواتین نے اسمبلی اجلاس سے بائیکاٹ کررکھا ہے تحریک انصاف کی خواتین سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا وزیراعلیٰ سمیت وزراءاور منتخب ارکان انہیں اجلاسوں کے دوران بے عزت کرتے رہتے ہیں اسی طرح بعض اہم اجلاسوں میں تو انہیں بلایا ہی نہیں جاتا ترقیاتی فنڈکے حوالے سے بھی حکومتی خواتین ارکان کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا ہے اس لئے بار بار وزیراعلیٰ پرویزخٹک سے رابطہ کیا گیا لیکن وہاں بھی کوئی شنوائی نہ ہوسکی جس کے بعد تمام خواتین ارکان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایوان سے بائیکاٹ کریں گی صوبائی اسمبلی اجلاس کے دوران ن لیگ کی ثوبیہ شاہد نے ڈپٹی سپیکر کی توجہ خواتین حکومتی ارکان کی غیرموجودگی کی طرف دلائی تو مسئلے کے حل کے بجائے ڈپٹی سپیکر نے انہیں جھاڑ پلاتے ہوئے کہا دفع ہو جاﺅ آپ کو بھی ہر چیز سے سروکار ہوتا ہے