ھفتہ, 27 اپریل 2024


انسداد کرپشن کے776 مقدمات پر227 افرادکی گرفتاریاں

 

ایمز ٹی وی(کراچی) سندھ میں گذشتہ چار سال کے دوران صوبائی انسداد کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے مجموعی طور پر 776 مقدمات کا اندراج کیا جبکہ اس حوالے سے صوبے کے 9 اضلاع سے 227 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
یہ معلومات پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کی رکن صوبائی اسمبلی نصرت سہر عباسی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سندھ اسمبلی میں تحریری طور پر جمع کرائی گئیں ہیں۔
تاہم اس موقع پر اے سی ای کے ذمہ دار وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔
تاہم ان کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ 2009 سے 2013 کے دوران کراچی کے 3 اضلاع، اس کے علاوہ حیدرآباد، جامشورو، بے نظیر آباد، میرپور خاص، لاڑکانہ اور سکھر سے 227 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس کے علاوہ انسداد کرپشن ڈپارٹمنٹ نے مختلف وزارتوں میں سرکاری عہدیداروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 836630 روپے وصول کیے جن میں سب سے زیادہ 807630 روپے حیدرآباد سے وصول کیے گئے۔
صوبائی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب کے مطابق کراچی (شرقی) سے 9 مقدمات میں 3 افراد کو گرفتار کیا گیا اور 14000 روپے وصول کیے گئے، کراچی (غربی) سے 8 مقدمات میں 9 افراد کو گرفتار کیا گیا اور ان سے 15000 روپے وصول کیے گئے، جبکہ کراچی (جنوبی) سے 181 مقدمات میں 50 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
ضلع حیدرآباد میں 118 مقدمات کا اندراج ہوا اور 36 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
صوبائی انسداد کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مجموعی طور پر رجسٹر کیے جانے والے 776 مقدمات میں سے سب سے زیادہ 260 مقدمات کا اندراج لاڑکانہ میں ہوا اور گذشتہ 4 سال کے دوران یہاں 63 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
اس کے علاوہ ضلع جامشورو میں 113 مقدمات کا اندراج ہوا اور 40 افراد کو گرفتار کیا گیا، ضلع میرپور خاص میں 42 مقدمات کا اندراج ہوا اور 17 افراد گرفتار ہوئے جبکہ ضلع سکھر میں 35 مقدمات کا اندراج ہوا اور 9 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں، تاہم ضلع بے نظیر آباد میں مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کی تفصیلات فراہم نہیں گئیں۔
صوبائی اسمبلی کو مزید بتایا گیا کہ اے سی ای نے ایک مقدمہ ماحولیات اور متبادل توانائی کے محکمے کے اسسٹنٹ سپریٹنڈنٹ کے خلاف بھی درج کیا ہے، یہ مقدمہ تاحال عدالت میں زیر سماعت ہے۔
وزیراعلیٰ نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رکن صوبائی اسمبلی محمود عبدالررزاق کی جانب سے ایک کیس کی تحقیقات اور سرکاری خزانے کو پہنچے والے نقصان کی وصولی پر اٹھائے گئے سوال کا جواب بھی دیا، یہ کیس وزارت خوراک کی جانب سے بولہری گودام سے 1621449 میٹرک ٹن گندم سے بھری 16214 بوریوں کے غبن کی تحقیقات اور کارروائی کیلئے پیش کیا گیا تھا۔
اس کا جواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ نے بتایا کہ اس کی مالیت 4 کروڑ 27 لاکھ روپے سے زائد تھی، انھوں نے بتایا کہ اے سی ای نے اس حوالے سے ایک مقدمہ درج کیا ہے، اس کی تفتیش کی ہے اور 7 مئی 2016 کو بولہری گودام کے انچارج ذوالفقار علی شاہ، مہتاب شاہ اور حبیب اللہ کے خلاف حیدرآباد میں اینٹی کرپشن کے خصوصی جج کے سامنے ایک چارج شیٹ پیش کی ہے، یہ مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ایم کیو ایم کی رکن اسمبلی ہیر سوہو کی جانب سے اے ای سی میں پولیس نمائندگی کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ 60 فیصد ڈپٹی دائریکٹرز ڈی ایم جی، سابق پی سی ایس اور پولیس سے ہیں، 70 فیصد اسسٹنٹ ڈائریکٹرز پی اے ایس، پولیس اور سابق پی سی ایس یا پی ایس ایس سے ہیں۔
ان کے علاوہ 30 فیصد انسپکٹر، 50 فیصد پروسیکیوشن انسپکٹر، 30 فیصد سب انسپکٹر، اور 25 فیصد اے ایس آئی، ہیڈ کانسٹیبلز کو محکمہ پولیس سے تعینات کیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران نصرت سہر عباسی نے صوبائی وزیر صنعت منظور وسان کے بیان پر سندھ اسمبلی کی قائم مقام اسپیکر شہلا رضا سے احتجاج کیا، منظور وسان نے ان کی پارٹی پر الزام لگایا تھا کہ سابقہ دور حکومت میں انھوں نے سندھ کی 36000 ایکٹر اراضی غیر قانونی طور پر الاٹ کی۔
اس موقع پر نصرت سہر عباسی نے کہا کہ اے سی ای کی کارکردگی انتہائی خراب ہے۔
ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی دلاور قریشی نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے تحریری جواب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کے صرف 9 اضلاع میں کرپشن ہے جبکہ دیگر 20 اضلاع میں کرپشن نہیں ہوئی ہے۔
سینئر وزیر نثار کھہوڑو نے وزیراعلیٰ کی غیر موجودگی میں صوبائی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اے سی ای ان کو درج کرائی جانے والی شکایات پر کارروائی کرتی ہے۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے ثمر علی خان نے کہا کہ صرف 227 گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی جو یہ واضح کرتا ہے کہ محکمہ اپنا کام درست انداز میں نہیں کررہا۔
نثار کھہوڑو نے زور دیا کہ اے سی ای نے ملزمان کے خلاف ٹھوس مقدمات بنائے تھے تاہم انھیں سزائیں دینا عدالت کا کام ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment