ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) جس طرح انگریزی ادب ولیم شیکسپیئر اور اُردو ادب غالب کے بغیر ادھورا ہے ، اسی طرح پنجابی زبان کا تذکرہ ہو اور بلھے شاہ کا ذکر نہ ہو ، یہ کسی اچنبھے سے کم نہیں ہو گا ۔ بلھے شاہ کا نام برصغیر میں بسنے والوں خصوصاً پنجابی زبان سے انسیت رکھنے والوں کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں ، بلھے شاہ کے نام سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنے والے عظیم پنجابی صوفی شاعر کا اصل نام سید عبداللہ شاہ ہے ۔ اگرچہ تاریخ پیدائش اور وفات کے حوالے سے اختلاف پایا جاتاہے ، لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ وہ 1680ء میں اُچ گیلانیاں (بہاولپور) میں سخی شاہ محمد درویش کے گھرپیدا ہوئے ۔ جب 6 سال کے ہوئے تو والدین کے ہمراہ ملکوال چلے گئے۔
والد متقی اور پرہیز گار ہونے کے ساتھ مقامی مسجد میں پیش امام اور استاد کے اعلیٰ درجے پر فائزتھے ۔ کہا جاتا ہے کہ موضع پانڈوکی کا ایک بڑا زمیندار پانڈو خان جس کی بیٹی کی شادی ملکوال میں ہوئی تھی ، وہ بلھے شاہ کے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُن کی اچھی شہرت سے متاثر ہوکر درخواست کی کہ وہ موضع پانڈو کی (قصور سے فیروزپور روڈ پر7کلو میٹر کی مسافت پر واقع وڈانہ سٹاپ کے قریب) تشریف لائیں اور وہاں امام مسجد کے فرائض منصبی ادا کریں ۔ پانڈو خان کے بے حد اصرار پر بلھے شاہ کے والد نے رضا مندی ظاہر کرتے ہوئے پانڈو کی میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور پیش امامی کے ساتھ بچوں کو دینی تعلیم بھی دینے لگے ۔
بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی جس کے بعد انہیں مزید تعلیم کیلئے قصور بھیج دیا گیا ، جہاں انہوں نے حافظ غلام مرتضیٰ کی شاگردی اختیار کی اور اپنے استاد سے عربی ، فارسی اور تصوف کی تعلیم حاصل کی ۔ حافظ غلام مرتضیٰ ، بلھے شاہ کے ساتھ وارث شاہ کے بھی استاد تھے ۔ استاد کا ان دونوں شاگردوں کے بارے میں کہنا تھا کہ " مجھے دو شاگرد عجیب ملے ہیں ، ایک بلھے شاہ ہے، جس نے علم حاصل کرنے کے بعد سارنگی ہاتھ میں پکڑ لی ، دوسرا وارث شاہ ہے جو عالم بن کے ہیر رانجھا کے گیت گانے لگا ۔
حقیقت کی تلاش بلھے شاہ کو مرشد کامل عنایت شاہ قادری کے در پر لاہور لے آئی ۔ مرشد ذات کے آرائیں ، پیشہ کھیتی باڑی اور باغ بانی تھا ۔ آپ کو اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی ، جیسے مولانا رومی کو شمس تبریز اور امیر خسرو کو نظام الدین اولیاء سے تھی ۔ ایک سیّد کا آرائیں کو اپنا مرشد مان لینے پر بلھے شاہ کو اپنی بھاوجوں ، ذات برادری کی مخالفت اور لوگوں سے طعنے بھی برداشت کرنے پڑے ، لیکن آپ نے اپنے مرشد کا دامن نہ چھوڑا اوران طعنوں کا اپنے کلام کے ذریعے بھر پور جواب دیا