Sunday, 22 September 2024


چین کی سرمایہ کاری عدم توازن کا شکار

 

ایمزٹی ی (تجارت)اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں ہونیوالی چینی سرمایہ کاری اور چین سے موصول ہونے والے قرضوں کی پاکستان کے توازن ادائیگی کے اعدادوشمار میں درست عکاسی نہیں ہورہی۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کیلیے بجلی پیدا کرنیوالی مشینری کی بڑے پیمانے پر درآمدات کی وجہ سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وفاقی ادارہ شماریات کے درآمدات سے متعلق اعدادوشمار میں فرق 3ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اس فرق سے ظاہر ہوتا ہے کہ سی پیک منصوبوں سے متعلق مشینری کی درآمدات کے بڑے حصے کی فنانسنگ پاکستانی بینکنگ انڈسٹری سے نہیں کی جارہی بلکہ اس کیلیے پاکستانی بینکاری سے باہر کے ذرائع استعمال ہورہے ہیں۔ اس خیال کو انٹربینک مارکیٹ پر کسی بڑے دباؤ کی عدم موجودگی سے بھی مزید تقویت ملتی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ درآمدی مالکاری سے متعلق مرکزی بینک اور وفاقی ادارہ شماریات کے اس بڑھتے ہوئے فرق کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی بینک سی پیک سے متعلق درآمدی مالکاری کے اعدادوشمار کو چین سے ملنے والے قرضوں اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کی رقوم کو بروقت اپ ڈیٹ کرنے کیلیے دیگر حکومتی محکموں بشمول وزارت خزانہ، منصوبہ بندی کمیشن اور سرمایہ کاری بورڈ کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد ادائیگیوں کے توازن کے اعدادوشمار پر نظرثانی کے بعد خاصہ اضافہ ممکن ہے جس سے تجارتی و جاری کھاتے کے خسارے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مختلف عوامل کی وجہ سے وفاقی ادارہ شماریات اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درآمدات سے متعلق اعدادوشمار میں فرق پایا جاتا ہے۔ گزشتہ 10سال میں پہلی ششماہی کے دوران اوسطاً یہ فرق 1.6ارب ڈالر رہا تاہم مالی سال 2015کی پہلی ششماہی میں یہ فرق 100فیصد اضافے سے 3ارب ڈالر کی غیر معمولی سطح تک پہنچ چکا ہے۔ اس فرق کے ایک بڑے حصے کا سبب بجلی پیدا کرنے والی میشنری کی درآمدات میں اضافہ ہے جس کا ریکارڈ کسٹمرز رکھتا ہے لیکن یہ اسٹیٹ بینک کے پاس دستیاب درآمدی مالکاری کے اعدادوشمار میں مکمل طور پر نظر نہیں آتا۔ علاوہ ازیں بجلی کی پیداواری مشینری کے درآمدی ڈیٹا کے فرق میں مالی سال 2017 کی پہلی ششماہی کے دوران بھی ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ فرق اوسطاً 196ملین ڈالر کے مقابلے میں ایک ارب 10کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ کیونکہ ملک میں بجلی کے شعبے میں بیشتر سرگرمیاں سی پیک کے تحت انجام دی جارہی ہیں اس لیے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ درآمدی اعدادوشمار کے دومجموعوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کا تعلق چین پاکستان اقتصادی راہداری سمجھوتے سے ہے جس پر اپریل 2014میں دستخط کیے گئے۔

 

Share this article

Leave a comment