ایمزٹی وی (صحت)رمضان کی آمد کے ساتھ ہی شہر میں پھلوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، شہری انتظامیہ کے تمام تر دعوے پہلے روز ہی دھرے رہ گئے۔ کراچی میں ماہ رمضان میں گراں فروشی روایت بن گئی اور شہری انتظامیہ کی کارکردگی بھی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے روایتی بیانات اور چھاپے جرمانوں کے نمائشی اقدامات تک محدود رہتے ہیں شدید گرمی میں روزہ دار افطار میں توانائی بحال کرنے کے لیے پھلوں کو ترجیح دیتے ہیں لیکن قوانین پر موثر عمل درآمد نہ ہونے اور پھلوں کی تجارت کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں بالخصوص مڈل مین کے کردار کی وجہ سے کسانوں سے سستے داموں خریدے گئے پھل شہروں میں من مانی قیمتوں پر فروخت کیے جارہے ہیں پھلوں کی طلب پوری کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر پھل چین، نیوزی لینڈ، ایران اور دیگر ملکوں سے بھی درآمد کے جارہے ہیں جن کی قیمتیں متوسط طبقے کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ دوسری جانب زرعی مارکیٹ کمیٹی کراچی کی جانب سے کمشنر کراچی کو ارسال کردہ نرخ نامے کے مطابق کراچی سبزی منڈی میں ہفتے اور اتوار کے دوران سندھڑی آم 75روپے، سرولی اور لنگڑا 60 روپے دیسی آم 40 روپے جبکہ دسیہری آم 55 روپے کلو فروخت کیا گیا فروٹ منڈی میں درجہ اول سپر کیلا 120روپے درجن جبکہ درجہ دوم کیلا 70روپے درجن فروخت کیا گیامنڈی کی سطح پر آڑو 120روپے کلو فروخت کیے گئے، تربوز 30روپے کلو، نیوزی لینڈ کا سیب 230 روپے کلو، چائنا سیب 170روپے کلو ، گرما 80روپے کلو، خربوزہ 85روپے کلو فروخت کیا گیا، منڈی میں خوبانی 200روپے کلو قیمت پر فروخت کی گئی منڈی کے مقابلے میں شہر کے مختلف بازاروں میں آم کی دگنی قیمت وصول کی جارہی ہے صدر ایمپریس مارکیٹ جو پھلوں کا سب سے بڑا بازار ہے آم 120سے 150روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے۔