لاہور: لاہور ہائی کورٹ میں گرفتار وکلا کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کامنہ کالا کیا، وکلا اپنے حقوق کے لیے کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟
پی آئی سی حملے سے متعلق وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر ہائیکورٹ کا تیسرا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس سردار شمیم نے نیا بینچ تشکیل دیا، 2رکنی بینچ میں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس سرداراحمد نعیم شامل ہیں۔
دوران سماعت ملک بھر کی بار ایسویسی ایشنز نے پی آئی سی واقعہ پر عدالت کے سامنے معافی مانگ لی۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو اسپتال جانے کی ضرورت کیا تھی؟ معاملات ایک دو دن میں یہاں تک نہیں پہنچے، جنہوں نے کلنک کا ٹیکہ لگایا وہ 2فیصد ہیں، 2فیصد نے 100فیصد وکلا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایسے وکلا کے خلاف بار نے کیوں کارروائی نہیں کی؟ 2 فیصد وکلا کے عمل پر ہائیکورٹ کا کوئی جج ان کا کیس سننے کو تیار نہیں، وکلا ڈیڑھ گھنٹے سڑکوں پر رہے انتظامیہ نے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟
وکیل اعظم نذیر تارڈ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بار کی مکمل ناکامی ہے، وکلا کے اندرونی احتساب کا عمل سخت کیا جائے گا، پی آئی سی میں جو کچھ ہوا تمام بار ایسوسی ایشنز نے مذمت کی، وقوعہ میں 100 سے کم وکلا تھے مگر پولیس تمام وکلا کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار وکلا کو قانونی امداد فراہم نہیں کرنے دی گئی۔
جس پر عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ کو سنجیدہ خطرہ ہے، وکلا چھوٹے چھوٹے گروپ میں رہیں، ایک جگہ زیادہ وکلا اکٹھے نہ ہوں، یہ خطرہ ججوں کے لیے بھی ویسا ہی ہے۔ سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔
لاہورہائی کورٹ نے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو طلب کرلیا، عدالت نے پی آئی سی کے سربراہ کو بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس واپس بھجوا دیا تھا جس کے بعد نئی بینچ تشکیل دی گئی۔