ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق فن لینڈ دنیا کی سب سے خواندہ قوم ہے۔ دنیا کی زیادہ پڑھی لکھی قوموں کی رینکنگ میں نورڈک ممالک سرفہرست ہیں جبکہ فن لینڈ کو تمام دنیا پر سبقت حاصل ہے جس کے بعد ناروے، آئس لینڈ، ڈنمارک اور سویڈن کو دنیا کی سب سے زیادہ خواندہ قومیں قرار دیا گیا ہے۔
'دا ورلڈز موسٹ لٹریٹ نیشنس 2016' نامی مطالعہ میں پہلی بار دنیا کے 60 سے زیادہ ممالک میں پڑھے لکھے رویے اور خواندگی کے رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ 'سنٹرل کنیکٹیکٹ اسٹیٹ یونیورسٹی' کی مارچ میں شائع ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق مطالعہ میں ایک ملک کی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت کی پیمائش کے بجائے قوموں کی درجہ بندی ان کے خواندہ طرز عمل اور اس کے لیے دستیاب وسائل کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
دنیا کی خواندہ قوموں کی تازہ ترین رینکنگ میں امریکہ اور کینیڈا بالترتیب نویں اور 11 ویں نمبر پر ہیں جبکہ برطانیہ فہرست میں نیچے یعنی 17 ویں نمبر پر جگہ حاصل کر سکا ہے۔سنٹرل کینیکٹیکٹ اسٹیٹ یونیورسٹی کے صدر اور تحقیق کے مصنف جان ڈبلیو ملر نے مطالعے کے لیے مجموعی طور پر 200 ممالک کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی ہے لیکن متعلقہ اعدادوشمار کی کمی کی وجہ سے انھوں نے صرف61 ممالک کا تجزیہ کیا ہے۔
بقول پروفیسر ملر یہ مطالعہ خواندہ طرز عمل اور ان کی حمایت کرنے والے وسائل کو دیکھنے کے لیے ایک لینس کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ تجزیہ کار جان ڈبلیو ملر جنھوں نے پچھلے 40 برس کے دوران اپنا تعلیمی کام خواندگی کے مسائل کے لیے وقف کر رکھا ہے کہتے ہیں کہ خواندگی کی طاقت اور پڑھی لکھی دنیا کا حصہ بننے کی اہمیت کو لوگ اکثر نظر انداز کر د یتے ہیں جبکہ خواندہ طرز عمل افراد اور قوموں کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ پروفیسر ملر کے مطالعے میں پڑھی لکھی قوموں کی درجہ بندی کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ اور جرمنی کو بالترتیب چھٹا اور آٹھواں نمبر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ہالینڈ دسویں، فرانس بارہویں اور آسٹریلیا سولہویں نمبر پر ہے۔ علاوہ ازیں جنوبی کوریا اور جاپان بالترتیب 22 ویںاور 32 ویں نمبر پر ہیں۔
جبکہ سنگاپور 36 ویں، قطر45 ویں، ترکی50 ویں ملائیشیا 53 ویں اور انڈونیشیا دنیا کی پڑھی لکھی قوموں کی درجہ بندی میں آخری 60 ویں نمبر پر ہے۔ پروفیسر ملر کا مطالعہ دو اقسام کے طریقہ کار پر مبنی تھا جس میں انھوں نے ایک طرف انٹرنیشنل تعلیمی نتائج اور پیسا ٹیسٹ میں پیش رفت کا جائزہ لیا ہے تو دوسری طرف خواندگی کے رویے کی خصوصیات مثلا آبادی، اسکول کی تعلیم کے سال، اخبارات کے قارئین، کتب خانوں کا سائز اور گھروں میں کمپیوٹر کی دستیابی کے اعدادوشمار کا معائنہ کیا ہے۔
پروفیسر ملر کے مطابق وہاں ایک طرف تو اسکولوں کے لازمی تعلیمی سال کی مدت اور تعلیمی اخراجات کے درمیان کوئی بامعنی تعلق نہیں تھا تو دوسری طرف ٹیسٹ کے اسکور اور تعلیمی اخراجات کے درمیان بھی کوئی واضح تعلق نہیں تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نورڈک ممالک نے مطالعے میں پہلی پانچ جگہیں حاصل کی ہیں اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مطالعہ کرنا ان لوگوں کی ثقافتی روایات کا حصہ ہے۔ پروفیسر ملر کے بقول درجہ بندی اس سے بہت مختلف بھی ہوسکتی تھی اگر مطالعہ صرف تعلیمی نتائج کی بنیاد پر کیا جاتا مثال کے طور پر برازیل تعلیمی سرمایہ کاری کے لیے اول نمبر پر ہوسکتا ہے۔اسی طرح اسٹونیا کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد کے حوالے سے سبقت حاصل کرسکتا ہے۔
جبکہ نیدر لینڈ گھروں میں کمپیوٹر کی دستیابی کے ساتھ اور فن لینڈ اخبارات کے قارئین کی تعداد کے لیے فہرست میں سب سے اوپر آسکتے تھے۔ علاوہ ازیں ٹیسٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر اگر مطالعے سے نتیجہ اخذ کیا جاتا تو اس فہرست میں سنگا پور ،جنوبی کوریا ،جاپان اور چین سب سے اوپر آسکتے تھے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جب ہم نے ان ملکوں کی بہترین تعلیمی کارکردگی کے علاوہ وہاں کے کتب خانوں کے سائز اور گھروں میں کمپیوٹر کی دستیابی جیسے عوامل کو تجزیہ میں شامل کیا تو نتیجہ حیران کن ثابت ہوا اور یہ ممالک درجہ بندی میں نیچے آگئے تھے۔
پروفیسر ملر نے مزید کہا کہ اگرچہ امریکہ میں لازمی تعلیمی سال میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود خواندہ طرز عمل کے رجحانات میں کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکی قوم دنیا کی دوڑ میں سست رہی ہے لیکن دوسروں نے اپنی رفتار تیز کردی ہے۔