ایمز ٹی وی (رپورٹ) ایک مقدمے میں پولیس کو ملزم ٹھہراتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’لانگ بیچ پولیس‘‘ نے زبردستی ایک مسلم خاتون کا ہیڈ اسکارف اتروایا تھا جب کہ دوسرے مقدمے کے مطابق ’’لاگونا بیچ کافی ہاؤس‘‘ سے خواتین کے ایک گروپ کو اس وجہ سے نکال دیا گیا تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔
لانگ بیچ سٹی اور اس کی پولیس کے خلاف دائر کیے گئے مقدمے کے مطابق کرسٹی پاؤل اور ان کے خاوند کو گزشتہ برس مئی میں اپنے گھر واپس جاتے ہوئے پولیس نے روکا اور انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا۔ دو پولیس افسران نے افریقی نژاد کرسٹی پاؤل کو ماضی کے دو وارنٹس کی وجہ سے گرفتار کیا تھا۔ ان میں اسے ایک وارنٹ اس وجہ سے جاری ہوا تھا کہ کرسٹی پاؤل نے اپنی بہن کی شناخت استعمال کی تھی اور ایک مرتبہ اس نے سن دو ہزار دو میں ایک گروسری اسٹور سے کوئی چیز چوری کی تھی۔
کرسٹی پاؤل نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا اور ایک پولیس افسر نے دیگر قیدیوں اور پولیس اہل کاروں کے سامنے زبردستی ان کا اسکارف اتارا۔کرسٹی پاؤل کے مطابق پولیس افسر نے یہ کہا تھا کہ ’’اسے اسکارف پہننے کی اجازت نہیں ہے اور پولیس اہل کاروں کو خواتین کو چھونے کی اجازت ہے۔‘‘ درج کروائی جانے والی شکایت کے مطابق، ’’پولیس افسر کے اس رویے کی وجہ سے کرسٹی پاؤل کو بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ابھی تک ذہنی اذیت اور جذباتی طور پر تکلیف کا شکار ہے۔‘‘
کرسٹی پاؤل کی طرف سے یہ مقدمہ نیویارک میں ’’امریکی اسلامی کونسل تعلقات‘‘ نامی ادارے کے لیے بہ طور وکیل کام کرنے والی خاتون یالدا ستار نے درج کروایا ہے۔ ان کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ لانگ بیچ پولیس کی جانب سے لیا گیا ایکشن غیرقانونی تھا اور پاؤل کی عزت نفس کے خلاف تھا۔‘‘ ایک دوسرے مقدمے میں چھ خواتین کا کہنا ہے انہیں مسلمان ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ عائد کیے گئے الزامات کے مطابق بائیس اپریل کو ایک ریستوران کی انتظامیہ نے ان چھ خواتین کو یہ کہتے ہوئے ٹیبل خالی کرنے کا مطالبہ کیا کہ اس وقت ریستوران میں رش زیادہ ہے اور ایسی صورت میں انہیں پینتالیس منٹ سے زیادہ بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔ جب اسکارف والی ان خواتین نے اٹھنے سے انکار کر دیا تو ریستوران کے مالک نے پولیس کو بلا لیا۔
ان خواتین کی نمائندگی کرنے والی قانونی فرم کے ڈین سٹرومر کا کا کہنا ہے کہ ایسا واضح طور پر ان خواتین کے مذہب کی وجہ سے کیا گیا ہے کیوں کہ جب ان خواتین کو میز خالی کرنے کے لیے کہا گیا تو اس وقت متعدد میزیں خالی تھیں۔ دوسری جانب اس ریستوران کے مالک نے مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طور خواتین کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کی اہلیہ بھی مسلمان تھیں۔