جمعرات, 09 مئی 2024


مارینا گلبہاری، شہرت کی بلندیوں سے گمنامی کی زندگی تک

ایمز ٹی وی (انٹرٹینمنٹ) چوبیس سالہ مارینا گلبہاری اور اس کے خاوند نوراللہ عزیزی نے فرانس میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے اور وہ اب پیرس سے نوّے کلومیٹر دور تارکین وطن کے ایک کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔گلبہاری کبھی کابل کی سڑکوں پر اخبار بیچا کرتی تھی۔ دس برس کی عمر میں اس کی زندگی کا رخ اس وقت تبدیل ہو گیا جب ’اسامہ‘ فلم کے ڈائریکٹر نے 2001ء میں اسے بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم میں ایک ایسی لڑکی کا کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کیا جو طالبان کے دور اقتدار میں لڑکے کا روپ دھار لیتی ہے تاکہ وہ آزادی کے ساتھ کابل کی سڑکوں پر گھوم پھر سکے۔

اکتوبر 2015ء میں وہ جنوبی کوریا میں ایک فلم فیسٹول میں شریک تھی جس دوران گلبہاری کی ایک ایسی تصویر منطر عام پر آئی جس میں وہ بے پردہ تھی۔ یہ تصویر سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوئی اور رجعت پسند افغان طبقے کو ناراض کرنے کا سبب بن گئی۔ گلبہاری اور اس کے اہل خانہ کو جان کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ گلبہاری کے آبائی گاؤں کے مولوی صاحب نے کہا کہ اسے گھر واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔عزیزی کا کہنا ہے کہ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ واپس گئی تو اسے جان سے مار دیا جائے گا۔

گلبہاری کے خاوند نور اللہ عزیزی نے بتایا، ’’ہم نے یہاں رکنے کے بارے میں سوچا تک نہ تھا۔ ہم لوگ ساتھ بھی کچھ نہیں لے کر آئے تھے۔‘‘ لیکن ان حالات میں وطن واپسی خود کشی کے مترادف تھی اس لیے دونوں نے فرانس میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے درخواست دے دی۔اپنی اس نئی زندگی کے بارے میں یہ جوڑا خوش نہیں ہے۔ گلبہاری کا کہنا تھا، ’’پہلے میں مستقبل کے خواب دیکھا کرتی تھی، اب میں صرف ماضی کے بارے میں سوچتی رہتی ہوں۔‘‘

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Media

Leave a comment