اتوار, 19 مئی 2024


ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ڈی این اے کے موضوع پر سیمینار

 

ایمزٹی وی (صحت)ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے فارنسک میڈیسن میں ڈی این اے اہمیت کے موضوع پر ڈائو میڈیکل کالج کے پروفیشنل ڈیویلپمیٹ سینٹر میں ایک سیمینارکا انعقاد کیا جس کامقصد نہ صرف اس شعبے کے پیشہ ور افرادکو یکجا کرنا تھا بلکہ انکی صلاحیت کو اجاگر کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کرنا تھا۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ڈائو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے اس بات پر زور دیا کہ اس اہم سیمینا ر سے زیا دہ سے زیادہ فائدہ اُٹھایا جائے ۔
اس کے علاوہ انہوں نے اس معلوماتی سمینار کے انعقاد پر انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔پروفیسر خاور سعید جمالی، پرو ائس چانسلر آف ڈائو یونیورسٹی نے پروگرام کے انعقاد پر انتظامیہ کے اس قدم کو سراہا ۔ پروفیسر فرحت مرزا، چیرمین ادارہ تحقیقاتی میڈیسن، جناح سند ھ میڈیکل یونیورسٹی نے بتایا کہ نا تجربہ کار افراد جنہیں ثبوت کو اکھٹا کرنے، انکی حفاظت کرنے، انہیں لیب تک پہنچانے کا ٹھیک سے انداذہ نہ ہوناہمارے نظام کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔کراچی جیسے بڑے شہر میں ڈی این اے لیبارٹری کا نہ ہونا بھی ایک لمحہ فکریہ ہے، جہاں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ڈاکٹر نذہت اکرم جو کہ عالمی تحقیقاتی ادارے کی ممبربھی ہیں انہوں نے اپنی پریزینٹیشن میں ڈی این اے کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ ڈی این اے کو دنیا بھر میں تحقیقات کے لئے کیسے استعما ل کرتے ہیں، اسکا جانچنے کا طریقہ بھی بتایااور ساتھ ساتھ ڈی این اے کتنا زیادہ قابلِ اعتماد ہے ۔
انہوں نے کہا کہ صحیح تحقیقات اُسی وقت ممکن ہے جب ڈی این اے کی صحیح سائنسی طریقے سے جانچ کی گئی ہو۔اُنہوں نے ڈی این اے کے قانونی مقصد کے استعمال ، اُسکی احتیا ط تدابیراور اس کی منتقلی کے بارے میں بتایا۔ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی ڈاکٹر رملہ ناز نے کہا کہ ڈائو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی کی کوششوں سے اس اہم نظر انداز کئے گئے موضوع پر کام شروع کیا گیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مکرم علی نے کہا کہ پاکستان میں تحقیقاتی عمل میں بہت ساری کمزوریاں ہیں ِ جن میں ملک میں میڈ یو لیگل سروس کی کمیِ اور لیب کا بڑے شہروں میں نہ ہونا شامل ہیں ۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment