بدھ, 08 مئی 2024


"تنہائی پسندی" تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے میں مددگار

ایمزٹی وی(صحت) ہر شخص ذہین اور کامیاب بننا چاہتا ہے؛ اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس بہترین تخلیقی صلاحیتیں بھی ہوں۔ اس مقصد کے لیے لوگ طرح طرح کے نسخے آزماتے ہیں، مشقیں کرتے ہیں اور دوائیاں تک استعمال کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی اکثریت کامیابی سے دور ہی رہتی ہے۔
لیکن آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو گی کہ نفسیاتی ماہرین نے ایک ایسی عادت دریافت کی ہے جو دنیا کے کم و بیش تمام ذہین ترین افراد میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے… اور وہ ہے ’’تنہائی پسندی۔‘‘
تنہائی میں گزارا جانے والا یہ وقت صرف چند منٹوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے اور چند گھنٹوں پر بھی لیکن اس کا مقصد اکیلے بیٹھ کر اپنے وقت کو فضول برباد کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس دوران وہ کسی خاص نکتے پر گہری سوچ بچار کرتے ہیں، اپنے آپ پر غور کرتے ہیں اور خودشناسی کی کوشش کرتے ہیں، درپیش مسائل کو حل کرنے کی تدبیر تلاش کرتے ہیں، شدید مصروفیت کے باعث تھکے ماندے دماغ کو آرام دے کر نئی مصروفیات اور چیلنجوں کے لیے تیار کرتے ہیں اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر متوجہ ہوتے جن پر وہ روزمرہ کے پر ہنگام معمولات میں توجہ دینے سے قاصر ہوتے ہیں۔
اس تنہائی میں وہ اپنے بہترین ساتھی ہوتے ہیں اور یہی تنہائی ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور خداداد ذہانت کو نکھارنے میں مدد دیتی ہے۔ مشہور موسیقار موزارٹ نے اپنے معرکۃ الآراء دھنیں (symphonies) تنہائی میں تخلیق کی تھیں۔
بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنس دان البرٹ آئن اسٹائن کو جب کسی خاص نکتے پر سوچ بچار کرنا ہوتی تو وہ طویل چہل قدمی پر اکیلے نکل جایا کرتے تھے، یا پھر کسی کمرے میں اکیلے بند ہو کر بیٹھ جایا کرتے تھے اور آنکھیں بند کرکے اپنے تخیل کو منظر کی صورت دینے کی کوشش کرتے تھے۔
اسی طرح مشہور مغربی ناول نگار کافکا کے مطابق وہ تنہائی میں بیٹھ کر خاموشی کی سرگوشیاں سنتے تھے اور دنیا کی تمام تر سچائیاں بے نقاب ہو کر ان کے سامنے رقص کرنے لگتی تھیں۔ ان تمام کامیاب، ذہین اور بہترین تخلیقی صلاحیتوں کے حامل افراد کی مثالوں سے یہی پتا چلتا ہے کہ تنہائی میں گزارے گئے لمحات میں انہوں نے غور و فکر کی ان منزلوں تک رسائی حاصل کرلی جن تک پہنچنا افراد کے ہجوم میں شاید ممکن نہ ہو

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment