ھفتہ, 18 مئی 2024


بھارتیوں نے بھی مودی کو ذہنی مرِیض قرار دے دیا

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) بھارتی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا نے نریندر مودی کے جی 20 کانفرنس سے پہلے دورہ ویتنام کو آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ گزشتہ روز سوشل میڈیا پر یہی بحث گرم رہی کہ جس ملک کے مظلوم عوام سیلاب کی آفتوں کے نتیجے میں ایک ایک نوالے کے محتاج ہو گئے ہوں اس ملک کا وزیر اعظم اپنی ہٹ دھرمی اور اناء کی خاطر ویتنام کو 50 کروڑ ڈالر کی امداد دے آیا ہے ، ایسے شخص کا ذہنی معائنہ وقت کا تقاضا کرتا ہے ۔ اس بحث میں ہندوستانی دفاعی تجزیہ نگاروں کے علاوہ اقتصادی ماہرین اور لاکھوں کی تعداد میں بھارت کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا تھا کہ آخر یہ سب کچھ کر کے نریندر مودی کن کو متاثر کرنا چاہتے ہیں ۔ بہرحال ویتنام کو دی جانے والی خطیر رقم نے وزیراعظم نریندر مودی کو سیلاب متاثرین کے ساتھ اور کئی ڈپلومیٹک ایشوز پر بھی گھیرنا شروع کر دیا ہے ۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ویتنام کے ساتھ کئی سمندری اور دفاعی امور پر چین کی رسہ کشی چل رہی ہے ، مودی کا شی جن پنگ سے ملاقات سے پہلے ویتنام جانا اور اس ملک کو 50 کروڑ ڈالر کا اقتصادی پیکیج کے علاوہ دفاع جیسے حساس شعبے میں 12 معاہدوں پر دستخط کرنا اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ ہندوستان چین سے اپنے تعلقات استوار کرنے میں مخلص نہیں ، بلکہ مودی کا دورہ چین بھی ان کے ان ہتھکنڈوں کی وجہ سے ناکام تصور کیا جارہا ہے ۔ اگر مودی کو ویتنام جانا ہی تھا تو یہ پروگرام جی 20 کانفرنس سے واپسی پر بھی انجام دیا جا سکتا تھا ۔ دوسری طرف دفاعی ماہرین کا کہنا تھا کہ عالمی تجزیہ نگاروں کی نظر میں نریندر مودی کے اس دورے کو ڈپلومیٹک نااہلی تصور کیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈپلومیٹک تقاضوں کے خلاف قدم اٹھا کر نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات اسی وجہ سے ناکام رہی ہے ۔ ممتاز محقق آنند شرما نے " روزنامہ دنیا " نارتھ امریکہ کے نمائندے ندیم منظور سلہری سے ٹیلی فون پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ بھارت سب سے پہلے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرتا لیکن نریندر مودی صرف امریکی خوشنودی کی خاطر تمام سفارتی اصولوں اور بھارت کے بہترین مستقبل کو دائو پر لگانے کی پالیسی پر گامزن ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر جس بحث نے اتنی طوالت اختیار کر لی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وقتی طور پر تو نریندر مودی کو صدر اوبامہ کی جانب سے شاباش مل جائے لیکن اس وقتی شاباش کی بھاری قیمت مستقبل میں بھارت کو جکانا پڑ سکتی ہے ، اس کے لئے اسے تیار رہنا چاہیئے ۔ چین اتنی جلدی سے مودی کے حالیہ اقدامات کو ہضم نہیں کر سکے گا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ پاکستان کے قریب ہو گا اور دوسری جانب واشنگٹن میں چینی سفیر کے حالیہ بیان نے چین کی پاکستان کے بارے میں پالیسی کو ایک بار پھر واضح کر کے پاکستان کو اپنا لازوال دوست قرار دیا ہے اور بھارت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں بیجا مداخلت کا سلسلہ بند کرے ۔ ایسے وقت میں چینی سفیر کا یہ بیان آنا بھارتی سفارتکاروں اور خارجہ امور کے ماہرین کے لئے پریشان کُن ضرور ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment