سپریم کورٹ میں ایک بار پھر پاناما کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ۔ پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ ثابت ہے کہ 1999ءمیں فلیٹس وزیرا عظم تو کیا شریف خاندان کی ملکیت بھی نہیں تھے اور 1993ءسے 1996ءکے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے اور جنوری 2006ءمیں الثانی خاندان نے فلیٹ کی بیریئر سرٹیفکیٹ حسین نوا ز کے حوالے کیے تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ حسین نواز نے لندن فلیٹس کی ملکیت تسلیم کی ہے اس لیے ملکیت پر کوئی تنازع نہیں مگر یہ بھی وضاحت مانگی جا سکتی ہے کہ یہ فلیٹس بچوں نے کیسے خریدے ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ اس کا ریکار ڈ کہاں ہے اور کب پیش کرینگے ؟ آپ پہلے دن سے ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں ، دستاویز ہیں تو دکھائیں ۔ایک ناں ایک دن تو شواہد سامنے آنا ہی ہیں ، شواہد ہیں تو پیش کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔
سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ منروا سروسز فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے ، حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلوں گا، قطری خاندان سے سیٹلمنٹ کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے توجسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ معاملہ ایمانداری کا ہے ، کیا سیٹلمنٹ حماد بن جاسم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے ؟تو وکیل نے جواب دیا کہ سیٹلمنٹ محمد بن جاسم سے ہوئی ، محمد بن جاسم کے بڑے بھائی 1991ءاور والد جاسم 1999ءمیں وفات پا گئے تھے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا محمد بن جاسم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے ؟ قطری خط میں نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دیے ۔