جمعہ, 29 مارچ 2024


پاناما وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے

 

ایمزٹی وی(اسلام آباد)جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکلا نے جوابی دلائل مکمل کرلئے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کیس کی سماعت مکمل ہونے پر ریمارکس دیئے کہ یہ وہ مقدمہ نہیں جس میں مختصر حکم دیا جائے، کیس کے تمام زاویوں کو گہرائی سے دیکھا جائے گا اور پھر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی اجازت پر عمران خان نے فاضل جج صاحبان کے روبرو کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں کے ادارے مضبوط ہیں لیکن ہمارے ادارے مضبوط نہیں، میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، میں کرپشن ختم کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں، لیڈر کو عام شخص سے زیادہ ایماندار اور دیانتدار ہونا چاہئے۔ اگر میری دیانتداری ثابت نہ ہوتو مجھے بھی عوامی عہدے پر آنے کا کوئی حق نہیں، پاکستانی قوم دنیا کی ان 10 اقوام میں شامل ہوتی ہے جو سب سے زیادہ خیرات اور فلاحی کاموں میں حصہ ڈالتی ہے لیکن ہم بحیثیت قوم ٹیکس کی ادائیگی میں سب سے پیچھے ہیں۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے جوابی دلائل پر کہا کہ گلف اسٹیل کے واجبات 63 ملین درہم سے زیادہ تھے لیکن اس سے متعلق کوئی وضاحت نہیں آئی، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ابتدائی دلائل میں آپ نے یہ بات نہیں کی۔
نعیم بخاری نے کہا کہ مریم نواز کی دستخط والی دستاویز میں نے تیار نہیں کی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ مریم کے دستخط والی دستاویز کو درست کہتے ہیں جب کہ شریف فیملی اس دستاویز کو جعلی قرار دیتی ہے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ متنازعہ دستاویز کو چھان بین کے بغیر کیسے تسلیم کریں، عدالت میں دستخط پر اعتراض ہو تو ماہرین کی رائے لی جاتی ہے، ماہرین عدالت میں بیان دیں تو ان کی رائے درست مانی جاتی ہے۔ عدالت ٹرائل کورٹ نہیں جو یہ کام کرے، نعیم بخاری نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں عدالت ایسا کر چکی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ گیلانی کیس میں عدالت نے توہین عدالت کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ یہ بھی وزیراعظم کے ان اثاثوں کا مقدمہ ہے جو ظاہر نہیں کیے گئے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسی دستاویزات کو ثبوت مانا جا سکتا ہے، عدالت نے ہمیشہ غیر متنازعہ حقائق پر فیصلے کیے، کیا ہم قانون سے بالاتر ہو کر کام کریں۔ عدالت اپنے فیصلوں میں بہت سے قوانین وضع کر چکی ہے، جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ بنیادی حقوق کا معاملہ سن رہے ہیں، مقدمہ ٹرائل کی نوعیت کا نہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ کیا دنیا میں کسی نے پاناما لیکس کو چیلنج کیا ہے، وزیر اعظم نے بھی موزیک فونیسکا کو کوئی قانونی نوٹس نہیں بھجوایا، 1980 سے 2004 تک قطری شیخ بینک کا کردار ادا کرتے رہے، سرمایہ کاری پر منافع اور سود بھی بنتا گیا، سالہا سال تک قطری مراسم کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، قطری نے کہہ دیا کہ قرض کی رقم اس نے ادا کی، اتنی بڑی رقم بینک کے علاوہ کیسے منتقل ہوگئی، انہوں نے اخبار میں پڑھا کہ اسی قطری کو ایل این جی کا ٹھیکہ دیا گیا، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں سچ نہیں بولا، انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ نہیں کیا، گیلانی کیس کی طرح میں بھی عدالت سے ڈیکلریشن مانگ رہاہوں، جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ قطری ٹھیکے والی بات مفادات کے ٹکراؤ کی جانب جاتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے ایل این جی کے ٹھیکے کا معاملہ نہیں، دستاویزات پر نہ دستخط ہیں نہ کوئی تاریخ، ادائیگی کس سال میں کی گئی وہ بھی نہیں لکھا، غیر تصدیق شدہ دستاویزات مسترد کرنا شروع کیں تو 99.99 فیصد کاغذات فارغ ہو جائیں گے، ایسی صورت میں ہم واپس اسی سطح پر آ جائیں گے، دونوں فریقین کی دستاویزات کا ایک ہی پیمانہ پر جائزہ لیں گے۔
نعیم بخاری کی جانب سے جوابی دلائل مکمل کیے جانے کے بعد شیخ رشید نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں باقاعدگی سے جسٹس اکیڈمی آتا ہوں،اتنے تسلسل سے میں کبھی نا تو اسکول گیا اور نہ کالج، عدالت نے سماعت کے دوران 371 سوالات پوچھے ،جن میں سے زیادہ تر شیخ عظمت کے تھے، جواب نہ ملنے پر جج صاحب کا دل زخمی ہوا، جج صاحب کا صحت یاب ہونا اللہ کا احسان ہے، میرا کیس اسمارٹ، سویٹ اور شارٹ ہے، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج آپ نے سلگش کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ آج کل انصاف اور فیصلے کے معنی مختلف ہو گئے ہیں، انصاف اس کو کہا جاتا ہے جو حق میں آئے، فیصلہ حق میں آئے تو کہا جاتا ہے کہ ان سے اچھا منصف کوئی نہیں، فیصلہ حق میں نہ آئے تو کہتے ہیں جج نالائق ہے، ججز پر رشوت اور سفارشی کا الزام لگتا ہے، کہتے ہیں کہ ملی بھگت ہو گئی۔
شیخ رشید نے کہا کہ میرا کیس پہلے دن سے ہی صادق اور امین کا ہے، عدالت صادق اور امین کی کئی فیصلوں میں تعریف کرچکی ہے، عدالت نے جن 20 اراکین کو نااہل کیا ان کے فیصلے سامنے رکھناہوں گے، ان 20 اراکین اسمبلی کو آرٹیکل 184 (3) کے تحت نااہل کیا گیا، قوم کو عدالت سے انصاف کی امید ہے، کرپشن پر سزا نہ ملی تو ملک خانہ جنگی کی طرف جائے گا، نواز شریف نے کہا تھا کرپشن کرنے والے اپنے نام پر کمپنیاں اور اثاثے نہیں رکھتے، دبئی فیکٹری کب اور کیسے لگی، پیسہ کیسے باہر گیا۔ تمام دستاویزات موجود ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ کیس آپ کو سمجھ آ چکا ہےاور اب ہم وقت ضائع کر رہے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ منی لانڈرنگ اور کرپشن پر استثنیٰ نہیں ہوتا، نواز شریف کا بیان اگر اسمبلی کی کارروائی ہو تو ہی اسے استحقاق حاصل ہے، ذاتی وضاحت استحقاق کے زمرے میں نہیں آتی، مفاد عامہ کی درخواست میں سپریم کورٹ وہ ریلیف بھی دے سکتی ہے جو نہیں مانگا گیا، ایمرجنسی والے کیس میں بھی سپریم کورٹ نے استدعا سے بڑھ کرریلیف دیا، عدالت نے چوہدری نثار کی درخواست میں چیئرمین نیب کو اڑایا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہو گا کہ تقریر کارروائی کا حصہ نہیں تھی، پتہ نہیں اس نے فیصلے پڑھے بھی ہیں یا نہیں، جس نے آپ کو لکھ کر دیا،اڑا دیا کے لفظ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، اس سے ایسا لگتا ہے جیسے کسی کا کوئی ایجنڈا ہو، ہم کسی کو اڑاتے نہیں، صرف فیصلہ کرتے ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ ہمارے شہر میں ایسے ہی لفظ استعمال ہوتے ہیں، ڈاوٴن ٹاوٴن کے منشی تو ایسے ہی لکھ کردیتے ہیں، میرے شہر میں لوگ قانون کو نہیں فیصلے کو زیادہ سمجھتے ہیں کیونکہ آپ سے آ گے تو صرف اللہ ہی کی ذات ہے، میں نے رات کو تنہائی میں شریف فیملی کی دستاویزات کو دیکھا ہے، مجھے تو تمام دستاویزات جعلی لگتی ہیں، سپریم کورٹ نے تو نواز شریف کو ملک میں داخلے کی اجازت دی، تمام ادارے اور پی ایم ہاوٴس روزانہ اپنا کیس امپروو کرتے ہیں، قطری کی آمد پہلی بار نہیں ہوئی، ہیلی کاپٹر کیس میں بھی قطری آچکا ہے، طارق شفیع نے بھی اپنا پہلا بیان بہتر بنایا ہے۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ نواز شریف کی انٹری نہیں ایگزٹ کا کیس لائے ہیں۔ سب لوگ اپنے کیس کی تیاری کرکے آتے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون شہادت کے مطابق چوری کا مال جس سے برآمد ہو اسی کو ثابت کرنا ہوتا ہے، شیخ رشید نے کہا کہ شریف خاندان نے تسلیم کیا ہے کہ مال ان کا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ مال شریف خاندان کا ہونے اور چوری کا ہونے میں فرق ہے، پہلے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مال چوری کا ہے۔
شیخ رشید کے بعد جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے جوابی دلائل میں کہا کہ اللہ وزیراعظم کو صحت، زندگی اور آئین کے مطابق چلنے کی توفیق دے، وزیراعظم نے اپنی تقریرمیں کہا تھا کہ استحقاق یا استثنیٰ نہیں مانگوں گا لیکن عدالت میں آ کر استحقاق مانگا گیا، وزیراعظم نے اسمبلی میں جو ریکارڈ پیش کیا تھا وہ طلب کرنے کی درخواست کی تھی، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے جو تصاویر پیش کی تھیں وہ ریکارڈ پر آ چکی ہیں، وزیراعظم شروع سے ہی بہت ہینڈسم ہیں، کیا آپ ان کی جوانی کی تصاویر دیکھنا چاہتے ہیں

 

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment