اتوار, 12 مئی 2024


سانحہ ٔبلدیہ آج بھی ہر انکھ اشک بار

ایمزٹی وی(کراچی) بلدیہ ٹاون فیکٹری کے سانحے کو چار سال پورے ہو گئے،جل کر مر جانے والے سیکڑوں مزدور اور روز سسک سسک کر مرنے والے ان کے ہزاروں پیارے انصاف کے منتظر ہے۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاون کی گارمنٹ فیکٹری میں آتش زدگی تاریخ کا ایک اندوہناک سانحہ ہے، اس کے ہر پہلو میں بےحسی اور سفاکی کی ان گنت داستانیں ہیں۔

ایک محلے سے ایک ساتھ پچاس جنازے اٹھے، بہت سوں کے پیارے دیدار بھی نہیں کر سکے،تہہ خانے میں گرم پانی میں کودنے کے باعث جو اموات ہوئیں انکی کیفیات نا قابل بیان تھیں کون مداوا کر سکتا ہے ان ماؤں کے دکھوں کا نہ پانچ لاکھ نہ دس لاکھ جب تک یہ آنکھیں جیتی ہیں تب تک ان میں اشک ہی رہیں گے۔

فیکٹری میں اٹھنے والا دھواں جسمیں انسانی گوشت کی بو تھی اور تین سو غریب محنت کشوں کا لہو،جاتے جاتے آسمان پر ایک تحریر ضرور چھوڑ گیا ہے کہ کون ان کو انصاف دلائے گا، کون ان کے بچوں کو آسرا دے گا، کون ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے گا۔

سانحہ بلدیہ ٹاؤن کیس میں تیس ماہ بعد اہم پیشرفت ہوئی ہے، جے آئی ٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیکٹری کوآگ بھتہ نہ دینے پرلگائی گئی اور اس واقعے کا مرکزی ملزم ایک سیاسی جماعت کا عہدیدارہے۔

10ستمبر2012 کو کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک فیکٹری میں یکایک خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس کے نتیجے میں ڈھائی سو سے زائد فیکٹری ورکر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

سانحے کی تفتیش نےجہاں ایک جانب فیکٹری ملازمین کی حفاظت کے تحت اٹھائے گئے اقدامات پرسوالیہ نشان اٹھائے بلکہ مزید کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا۔

واقعے کی تحقیقات کے بعد کیس تقریباً داخلِ دفترکردیا گیا تھا کہ 14 جنوری 2015 کوسندھ ہائی کورٹ نےقانون نافذ کرنے والے اداروں سے واقعے کی جے آئی رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت میں پیش کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سانحے کا مرکزی ملزم پکڑا جاچکا ہے جس نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ سیاسی جماعت کے اعلیٰ عہدیدار نے فیکٹری مالکان سے بیس کروڑ بھتہ مانگا تھا، فیکٹری مالکان اس معاملے پربات کرنے گئے تواعلیٰ عہدیدارنے لاتعلقی ظاہرکی اورتلخ کلامی بھی کی، جس کے بعد اس عہدیدارسے پارٹی کی ذمہ داریاں بھی واپس لے لی گئیں اوربھتہ نہ ملنے پرکیمیکل پھینک کرعلی انٹرپرائززنامی فیکٹری کر نذرِ آتش کردیا گیا جس کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ رضوان قریشی نامی ملزم’کے ایم سی‘کا سینیٹری ورکراورمتحدہ قومی موومنٹ کا کارکن ہے، عدالت نے رینجرز کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنالیاہے۔

رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ اس وقت کے ایک وزیرنے فیکٹری مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا بعد ازاں سابق وزیرِاعظم نے مالکان کی ضمانت کرائی، تاہم دباؤ پرپیچھے ہٹ گئے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرنٹ لائن مین نے کیس ختم کرانےکیلئےفیکٹری مالکان سے پندرہ کروڑروپے وصول کیے۔

واضح رہے کہ اس کیس میں متحدہ قومی موومنٹ کے سا بق ڈپٹی کنوینیر انیس قائم خانی بھی گرفتار ہیں ‘ انہوں نے تین مارچ 2016 کو سابق ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال کے ساتھ مل کر پاک سرزمین پارٹی ے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت بنا لی تھی

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment