Saturday, 30 November 2024


یمن ایک بارپھرامریکا کا شکار

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) حوثی قبائل پر یہ امریکا کا پہلا براہ راست حملہ ہے۔ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب گذشتہ ہفتے امریکی بحری جہاز پر حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقے سے میزائل داغا گیا تھا۔

پینٹاگون کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکی صدر براک اوباما کی منظوری کے بعد یمن کے بحیرہ احمر میں ٹوم ہاک کروز میزائل کی مدد سے بمباری کی گئی۔
پنٹاگون کے مطابق ابتدائی شواہد سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ سائٹس تباہ ہوگئی ہیں۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کک نے کہا، 'یہ محدود دفاعی حملے اپنے جوانوں، جہازوں اور نیوی گیشن کی آزادی کو محفوظ بنانے کے لیے کیے گئے۔'

واضح رہے کہ حوثی باغی یمن میں حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہیں، دوسری جانب سعودی عرب اتحادی فورسز کے ساتھ مل کر یمنی صدر منصور ہادی کی مدد کر رہا ہے اور اس کی جانب سے اکثر وبیشتر حوثی باغیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں عرب اتحاد کی فضائی کارروائی شروع ہونے سے اب تک ساڑھے 6 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

عالمی سطح پر یمن کے صدر تسلیم کیے جانے والے منصور ہادی کی حامی ملیشیا اور فورسز نے عدن کو اپنا عارضی بیس بنایا ہوا ہے اور انہیں صنعا پر قابض حوثی باغیوں اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اتحاد نے مارچ 2015 میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس عرب اتحاد کو امریکا کی بھی حمایت حاصل ہے اور اس میں 9 عرب ممالک شامل ہیں اور انہوں نے فضائی کارروائیوں کے ذریعے حوثی باغیوں کو جنوبی یمن سے دور ہونے پر مجبور کردیا ہے تاہم باغیوں کا اب بھی دارالحکومت صنعا پر قبضہ برقرار ہے جو انہوں نے 2014 میں حاصل کیا تھا۔

رواں ماہ 9 اکتوبر کو بھی یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ’سعودی اتحاد‘ کی جنازہ ہال میں کی گئی فضائی بمباری کے نتیجے میں 140 سے زائد افراد ہلاک اور 500 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ بمباری کا نشانہ بننے والے ہال میں حوثیوں کے ممتاز مقامی عہدیدار کے والد کے جنازے کے لیے سیکڑوں افراد موجود تھے اور باغیوں نے اس حملے کا الزام عرب اتحاد پر لگایا۔
باغیوں کے زیر کنٹرول المراعش ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہلاک ہونے والوں میں صنعاء کے میئر عبد القادر ہلال بھی شامل تھے۔

Share this article

Leave a comment