Friday, 29 November 2024


پاکستانی معیشت کے حوالے سےایک نئی پیشگوئی

 

ایمز ٹی وی(تجارت) اقوام متحدہ کے ادارے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن فار ایشیا اینڈ پیسیفک (یونیسکیپ) کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی ممکنہ طور پر مالی سال 2017 اور 2018 میں 5.2 فیصد سے بڑھ کر 5.4 تک ہوجائے گی۔
سروے کے مطابق نجی استعمال اور سرمایہ کاری ملک کی معیشت کو چلائیں گے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں امن و امان کی بہتر صوتحال اور پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری انفرااسٹکرکچر منصوبے بھی ملکی معیشت کو چلانے میں معاون ثابت ہوں گے۔
اکنامک اینڈ سوشل سروے آف ایشیا اینڈ پیسیفک 2017 کے مطابق سی پیک کے تحت چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری ملکی زرمبادلہ میں اضافہ کرنے میں معاون ثابت ہوگی اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ اور تعمیر سے متعلق اشیاء کی درآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔
سروے کے مطابق سی پیک منصوبے نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب متوجہ کیا ہے، جس کے باعث پاکستان میں نجی سرمایہ کاری مزید مستحکم ہوئی ہے۔
بڑی صنعتوں کو استعمال کے لیے مہیا کیے جانے والے ایندھن کے نرخ میں کمی اور توانائی کے تحفظ کے بعد نمایاں فائدہ حاصل ہو گا۔
اسی طرح کپاس، گنے اور مکئی کی پیداوار کو بڑھانے کے ساتھ ہی زرعی شعبے میں بھی بہتری کے امکانات موجود ہیں۔
اسی دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مالی سال 18-2017 میں غربت کی شرح 5 فیصد سے بڑھ کر 5.5 فیصد ہوجائے گی۔
تاہم سروے کے مطابق درمیانی مدت کے توانائی بحران کے نتیجے میں ملکی ترقی اپنی صلاحیت سے کم ہی رہے گی۔
حالیہ جدت کے باوجود بقایاجات سے نمٹنے اور تکنیکی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے توانائی کے شعبے میں سبسڈیز کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہوگی۔
سروے میں کہا گیا کہ کمزور نظام حکومت جنوبی ایشیائی ممالک میں ٹیکس آمدن میں کمی کی وضاحت کرتا ہے کیونکہ حکومت کا معیار ہی ٹیکس دہندگان پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ایسے عوامل جو مالی بدعنوانی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان میں ٹیکس کے قوانین، کمزور قانونی اور عدالتی نظام اور حکومتی شعبوں میں کم تنخواہیں شامل ہیں۔
سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن چار ملکوں میں شامل ہے جن کے ٹیکس دہندگان کی معلومات عوامی سطح پر موجود ہیں جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ 18 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں صرف 7 لاکھ 50 ہزار ہی رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان موجود ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستانی پارلیمنٹ بشمول سینیٹ اور تمام قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کی تقریبا! نصف تعداد ٹیکس ادا ہی نہیں کرتی، جو کہ قانون سازوں کی جانب سے حوصلہ شکنی کا مظاہرہ ہے۔
ان معلومات کو عوامی سطح پر لانے سے نتائج حاصل نہیں ہوں گے جب تک ایسے اقدامات نہ کیے جائیں جو موزوں طریقے سے نافذالعمل ہوں۔
ایشیا پیسیفک کی ایسکیپ کے اعدادوشمار میں یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گورننس ملکی وسائل بروئے کار لانے کی کوششوں پر اثرانداز ہوتی ہے تاہم 5 ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان میں ٹیکس کی آمدن 2005 سے 2014 تک طرز حکومت کی ناکامی کی وجہ سے کافی حد تک متاثر ہوئی ہے۔

 

Share this article

Leave a comment