Saturday, 30 November 2024


شریف فیملی کی جانب سےجےآئی ٹی رپورٹ پراعتراضات جمع

 

ایمز ٹی وی ( اسلام آباد ) جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں پہلی سماعت پر شریف فیملی کی جانب سے رپورٹ پر اعتراضات جمع کرا دئے گئے
جسٹس اعجاز افضل کی سر براہی میں جسٹس عظمت شیخ اور جسٹس اعجا ز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق شریف فیملی کے وکلاءنے جے آئی ٹی رپورٹ اعتراضات سپریم کورٹ میں جمع کرا دئیے ہیں، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا اور اس کا رویہ غیر منصفانہ تھا۔
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کرے ۔
دورانِ سماعت وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے جواب جمع کرا دیا ہے۔ اسحاق ڈار کے وکیل کے مطابق جواب اعتراضات پر مبنی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں قانونی حدود کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے ،شہباز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بطورِ گواہ پیش ہوئے ، ان کا بیان صرف تضاد کی نشاند ہی کے لئے اسےعمال ہو سکتا ہے.
اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کے اطراف میں خاردار تاریں لگا دی گئی ہیں۔ اس موقع پر 700 پولیس اہلکار سپریم کورٹ کے اطراف میں تعینات ہیں جبکہ رینجرز اور ضلعی انتظامیہ کے افسران بھی سپریم کورٹ کے اندر اور باہر موجود رہیں گے۔سماعت کے موقع پر عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید ،جماعتِ اسلامی کے سراج الحق، اور مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت ، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی ،فواد چوہدری ،مسلم لیگ ن کے راجہ ظفر الحق ،عابد شیر علی، ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے علاوہ دیگر رہنما بھی موجود ہیں۔
وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان سمیت 34 افراد سے تحقیقات کے بعد جے آئی ٹی کی رپورٹ عام ہوئی تو اپوزیشن نے ہنگامہ بر پا کر دیا ۔
پیپلز پارٹی ،پی ٹی آئی ،ایم کیو ایم ،جماعتِ اسلامی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِ اعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، جبکہ اے این پی اور قومی وطن پارٹی نے اپنے اتحادیوں کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کا مشورہ دیا ۔
وزیرِ اعظم نواز شریف نے پہلے اپنی کابینہ سے بھر پور اعتماد حاصل کر کے اپوزیشن کے استعفیٰ کے مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا اور پھر پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر اپوزیشن کو اپنی بھر پور سیاسی طاقت دکھا دی۔

 

Share this article

Leave a comment