ایمزٹی وی(اسلام آباد)اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈویژن بنچ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اسحاق ڈار کی احتساب عدالت کا فیصلہ چیلنج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کے وکیل قوسین فیصل مفتی اور نیب پراسیکیوٹر عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس 2 آپشنز ہیں، ایک آپشن یہ ہے کہ اشتہاری قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیکر 30 دن میں کارروائی مکمل کرنے کا حکم دیں، دوسرا آپشن ہے کہ آئندہ سماعت تک احتساب عدالت کی کارروائی کو روک دیا جائے، آپ کس آپشن کے ساتھ جانا چاہیں گے، پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق نے کہا کہ ایسی صورت میں دوسرے آپشن کے ساتھ جانا چاہوں گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ وہ رپورٹ دکھائیں جو آپ نے تصدیق کرائی ہے، پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے رپورٹ بھجوائی تھی جس پر ابھی تک جواب نہیں آیا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کو اشتہاری قرار دینے کے لیے صرف 10 دن کا وقت کیوں دیا گیا، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ عدالت اشتہاری قرار دینے کے لیے 30 دن سے کم وقت کیسے دے سکتی ہے اور ضابطہ فوجداری کے تحت30 دن کی مہلت دیے بغیر کیسے اشتہاری قرار دیا جا سکتا ہے۔
وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسحاق ڈار کارروائی سے بھاگ رہے ہیں تاہم ہم عدالتی کارروائی سے بھاگنا نہیں چاہتے، عدالت نے استفسار کیا کہ ملزم کب بیرون ملک گیا جس پر وکیل اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ 23 اکتوبر کو بیرون ملک گئے۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد احتساب عدالت کو اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس کی کارروائی سے روکتے ہوئے17 جنوری تک حکم امتناع جاری کردیا ہے۔ اسحاق ڈار نے احتساب عدالت کی جانب سے ناقابل ضمانت وارنٹ اور اشتہاری قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے احتساب عدالت فیصلے کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں دو روز قبل متفرق درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں ہائیکورٹ سے احتساب عدالت کے 21 نومبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ احتساب عدالت نے میرے ناقابل ضمانت وارنٹ اور جائیداد ضبطی کے احکامات جاری کئے، حالانکہ جب ایک شخص بیمار اور زیر علاج ہو تو اس کے خلاف عدالتی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے.