Friday, 29 November 2024


بیٹا ماں کا قاتل نکلا

 

ایمزٹی وی(حیدرآباد) ایس ایس پی پیرمحمد شاہ کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما سائرہ نصیر کا قاتل ان کا اپنا بیٹا ہے۔
ذرائع کے مطابق رواں ماہ فنکشنل لیگ کی رہنما سائرہ نصیر کو بے دردی سے قتل کرنے کے بعد گاڑی سمیت جلا دیا گیا تھا اور 7 اور 8 دسمبر کی درمیانی شب ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ سائرہ نصیر قتل کیس نے اب نیا موڑ لے لیا ہے اور مبینہ طور پر ان کے اپنے بیٹے فہد شاہ کو قتل کا ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔
ایس ایس پی حیدرآباد پیر محمد شاہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سائرہ نصیر قتل کیس ایک چیلنج تھا، اس حوالے سے سیکڑوں لوگوں سے تحقیقات کی گئی اور بد قسمتی سے قتل کے حوالے سے مقتولہ کے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے عکس بند ویڈیو قتل سے ایک گھنٹہ قبل تک کی ہی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ سائرہ نصیر کے قریبی حلقہ احباب اور پڑوسیوں کو پہلے دن سے ان کے گھر کے افراد پر شک تھا تاہم حکمت عملی کے تحت پولیس کی جانب سے سائرہ نصیر کی فیملی کو تنگ نہیں کیا گیا اور ناہی ان سے تحقیقات کی گئی۔
ایس ایس پی پیر محمد نے بتایا کہ گزشتہ رات تحقیقات کے حوالے سے سائرہ نصیر کے بیٹے فہد شاہ کو تھانے طلب کیا گیا تھا، دوران تفتیش ملزم نے بتایا کہ اس کی اپنی والدہ کے ساتھ آئے روز تلخ کلامی ہوا کرتی تھی اور قتل کی رات بھی تلخ کلامی بڑھ کر ہاتھا پائی تک جاپہنچی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ میں والدہ کے کمرے میں قتل کے ارادے سے نہیں گیا تھا لیکن ماں کے ساتھ بیوی کے حوالے سے چپقلش ہوئی جس پر والدہ نے مجھے تھپڑ مارا اور مجھے غصہ آگیا، اسی غصے کے عالم میں کچن سے موصلی لے آیا اور ماں کے سر پر دے ماری، چوٹ کی شدت سے وہ نیچے گر گئی اور تڑپنے لگی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔
ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ملزم کو کئی شواہد ملنے کے بعد گرفتار کیا گیا جس میں سے ایک قریبی گھر سے ملنے والی سی سی ٹی فوٹیج اور سائرہ نصیر کی گاڑی کا ٹریکر تھا جس سے پتہ چلا کہ قتل کی رات 12 بجے کے قریب مقتولہ کی گاڑی کا دروازہ صرف 2 منٹ کے کھلا اور بند ہوگیا اور اس دوران ملزم نے اپنی ماں کی لاش گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھ دی، رات 2 بجے ملزم گاڑی کو تیزی کے ساتھ ہوسڑی موڑ پر لے گیا اور وہاں جاکر تقریباً 7 منٹ تک ریکی کرتا رہا اور بعد میں پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ پولیس کو مقتولہ کی مسخ شدہ لاش 7 دسمبر کو ملی جسے بالوں اور انگوٹھی کے ذریعے شناخت کیا گیا اور بعد میں ڈی این اے ٹیسٹ سے بھی تصدیق کی گئی۔
 

 

Share this article

Leave a comment