Friday, 29 November 2024


"بلیو" رنگ کا کیمیکل ملیریا سے بچاؤ کے لئے فائد مند

 

ایمزٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک)نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نیلے رنگ کا ایک عام استعمال ہونے والا کیمیکل ڈائی میتھائلین بلو بہت تیزی سے ملیریا کی وجہ بننے والے پیرا سائٹ (طفیلیوں) کو تباہ کرتا ہے اور اس کے انسانوں پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
افریقی ملک مالی میں امریکی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور ریڈ باؤنڈ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے ماہرین نے ملیریا کے کئی مریضوں کا اس رنگ سے کامیاب علاج کیا ہے۔ انہوں نے ڈائی میتھائلین بلیو کو ایک اور چینی کیمیکل میں شامل کیا اور اسے ملیریا کے مختلف مریضوں پر آزمایا۔دودن کے اندر اندر مریض ملیریا سے شفا پاگئے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر انہیں دوسری مرتبہ مچھر کاٹ بھی لے تب بھی ملیریا دوسرے مریضوں تک نہیں پھیل سکتا ماہرین نے یہ تمام تحقیق لینسٹ نامی سائنسی جریدے میں شائع کرائی ہے اور ناقدین نے اسے ملیریا کے خاتمے میں اہم قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ دوسرے طریقہ علاج سے صحت یاب ہونے والے مریض کو کئی دن بعد بھی کوئی مچھر کاٹ لے تو وہ ان کے خون میں موجود پیراسائٹ سے دوسرے صحت مند شخص کو بھی بیمار کرسکتا ہے لیکن ڈائی میتھائلین کے معاملے میں ایسا نہیں اور اس طریقہ علاج میں مریض کے خون میں موجود جراثیم بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملیریا سے شفا پانے کے بعد بھی ایک ہفتے سے زائد وقت تک ملیریا کا پیراسائٹ خون میں موجود رہتا ہے اور یوں دوسرے صحت مند لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
اس رنگ پر ٹیون بوسیما اور ان کے ساتھیوں نے تحقیق کی ہے اور ان کے مطابق میتھائلین بلیو کا ملیریا کش استعمال بہت موزوں ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹیون بوسیما نے مزید کہا کہ یہ دوا وہ خود پر آزما چکے ہیں اور اس سے پیشاب کا رنگ جامنی مائل دکھائی دیتا ہے جو مریضوں کو تھوڑا پریشان کرسکتا ہے اسی بنا پر اب دوا میں کچھ مرکبات ملاکر اس کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں ہرسال 21 کروڑ کے لگ بھگ افراد ملیریا کے شکار ہوتے ہیں جن میں 4 لاکھ 29 ہزار افراد اس مرض سے لقمہ اجل بن رہے ہیں جن میں افریقی بچے سرِفہرست ہیں۔
اگرچہ یہ رنگ اس سے قبل بھی کئی طبی کاموں میں استعمال کیا گیا ہے لیکن اس کے کئی ضمنی اور مضر سائیڈ افیکٹس بھی سامنے آئے ہیں جس کا تذکرہ اس تحقیق میں نہیں کیا گیا ہے۔

 

Share this article

Leave a comment